2 366

مخاصمت برائے مفاہمت

عمومی تاثر یہ ہے کہ جے یو آئی میں صرف حافظ حسین احمد ہی فقرہ چست کرنے اور نثر میں شاعری کرنے کا فن رکھتے ہیں مگر مولانا محمد خان شیرانی کا حالات حاضرہ پر دیا گیا انٹرویو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی لفظوں سے کھیلنے اور انہیں برتنے کے فن میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ خود مولانا فضل الرحمان بھی جملوں کی ترتیب واستعمال کا حق ادا کرتے ہیں۔ مولانا شیرانی نے بہت مہارت کیساتھ مولانا فضل الرحمان کیساتھ اپنے اختلاف کو دلچسپ پیرائے میں بیان بھی کیا ہے اور معصومیت کیساتھ کہا کہ انہوں نے تو مولانا سے دھوکا نہیں کھایا۔ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں مولانا شیرانی نے جن اشاروں، کنایوں اور استعاروں میں جو کچھ کہا ہے وہ تو دو بزرگانِ دین کا معاملہ ہے۔ ایک جماعت کے دو قائدین کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے انہوں نے دوٹوک لائن لی ہے جو ایک بھرپور مگر الگ موضوع ہے۔ آخر میں وہ مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کی بات کرکے اسی نکتے پر آئے ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے تعلقات استوار کرنے کی راہ میں واحد اور اصل رکاوٹ ہے۔ مولانا شیرانی نے سیاست کی ہنڈیا میں موجودہ اُبال کے حوالے سے اپنا تجزیہ اور تبصرہ دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم مخاصمت برائے عداوت نہیں مخاصمت برائے مفاہمت کی سیاست کر رہا ہے۔ یہ لوگ بھی اپنا حصہ چاہتے ہیں۔ استعفے نقد ہیں اور نقد چیز پھینک کر اُدھار کی اُمید پر بیٹھنا کوئی دانائی نہیں۔ مولانا شیرانی سیاست کے میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ بلوچستان کی صوبائی حکومتوں اور وفاق کے سیاسی مد وجزر کے گواہ ہیں۔ اس لحاظ سے ملک کی موجودہ سیاست پر ان کا تبصرہ قابل غور ہے۔ جس دن ان کا ”مخاصمت برائے مفاہمت” کا فلسفہ اخبارات کی زینت بنا عین اسی دن ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا بیان اخبارات میں شائع ہوا اور عین اسی دن سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کے تبصرے بھی سامنے آئے۔ سلیم مانڈوی والا نیب کے ریڈار پر ہیں۔ سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ اگر سب کام نیب نے ہی کرنے ہیں تو باقی اداروں کو بند کردیا جائے۔ نیب اور ایف آئی اے کی اہمیت نہیں رہی سب ادارے اسی کے ڈائریکشن پر چل رہے ہیں اور یہ کہ نیب قوانین میں ترامیم نہ کرنا سیاسی جماعتوں کی غلطی ہے۔ جناب مانڈوی والا نے اپنے ایک معاملے میں چیئرمین نیب کو سینیٹ میں طلب کر رکھا ہے اور ان کا کہنا کہ چیئرمین نیب سینیٹ میں پیش نہیں ہوں گے تو ان کے وارنٹ جاری کر دئیے جائیں گے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے ملک میں سارے فساد کی جڑ نیب ہے اس کو ختم کیا جانا چاہئے۔ چیئرمین نیب جاوید اقبال کا مؤقف ہے کہ ایک دھیلے کی نہیں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی ہے۔ ملک میں غربت افلاس اور صحت وتعلیم کے شعبوں کی زبوں حالی کی وجہ منی لانڈرنگ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بدعنوانی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اس کیساتھ ہی جسٹس جاوید اقبال نے نیب کی کامیابیاں، مجبوریاں اور رکاوٹیں بھی گنوائی ہیں۔ اس ساری صورتحال کو مولانا شیرانی کے بیان کیساتھ جوڑ کر دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافے اور اپوزیشن کے بظاہر پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچنے کی اصل وجہ احتساب کا نظام ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں اگر نیب کے معاملے پر اپوزیشن کی ترامیم مان لوں تو ملک میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اس حوالے سے اپوزیشن کی نیب قانون میں تجویز کردہ چھتیس تجاویز کا چرچا بھی ہے۔ ان تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے تو نیب کا وجود کتابوں اور پرانے اخباروں کی سرخیوں میں ہی باقی رہے گا۔ وہی ماجا گاما جس کا سرکاری دفتروں اور ایوانوں کے قریب سے گزر کم ہوتا ہے کسی اخبار کے مستعد تحقیقاتی رپورٹر کی طرح کرپشن کی خبر اور ثبوت کہاں سے ڈھونڈ لائے گا؟۔ اس طرفہ معجون احتسابی نظام میں احتساب بیورو ازخود کارروائی کا حق نہیں رکھتا بلکہ گاما پکوڑے والا جب کسی سرکاری محکمے میں کرپشن ہوتی دیکھے گا تو وہ سارے ثبوت حاصل کرکے اپنے شناختی کارڈ اور بیان حلفی کیساتھ احتساب بیورو کو درخواست دے گا۔ یہ نظام ایک تصوراتی اور دیومالائی کہانی اور لطیفہ ہی کہلا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ نظام ”کامیابی” سے آزادکشمیر میں کام کر رہا ہے۔ کامیابی سے اس لئے کہ کرپشن کرنے والے کرپشن کرتے ہیں اور احتساب کا نظام دھوپ اور ہیٹر تاپنے اور چائے کی چسکیاں لینے کا اپنا کام کرتا ہے۔ یوں سب آئین وقانون کے عین مطابق اپنے اپنے دائرے میں کام کررہے ہیں۔ عام آدمی کو کیا خبر کہ کس محکمے میں کرپشن ہو رہی ہے اور اگر کرپشن ہو بھی رہی ہے تو اس کی بلا سے۔ میثاق جمہوریت، جناب آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست اور چوہدری شجاعت حسین کے ”مٹی پاؤ” فلسفے کے زیراثر آزادکشمیر میں احتساب کے نظام کا کامیابی سے ”کریا کرم” کرنے کا یہ تجربہ اب اسلام آباد میں کیا جانا مقصود ہے اور اس کارخیر کو عمران خان کے ذریعے انجام دیا جانا مقصود ہے۔

مزید پڑھیں:  گھاس کھاتا فلسطینی بچہ کیا کہتا ہے؟