2 384

جیو اکنامک ریاست کا خواب

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے قومی سلامتی ایڈوائزری بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب پاکستان کو جیو سٹریٹجک کی بجائے جیو اکنامک ریاست بنائیں گے۔ دنیا کو معاشی شراکت داری اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کریں گے جس سے پاکستان عالمی اقتصادی مرکز بنے گا۔ ڈاکٹر معید یوسف کا یہ کہنا بدلتے ہوئے وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی ریاست نہ صرف اپنے عوام کی فلاح وبہبود کا تصور اپنائے اور لوگوں کو بہتر میعار زندگی فراہم کرے ۔جیو سٹریٹجک اور جیو اکنامک کی جو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں پاکستان کے حوالے سے ان کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ پاکستان کو سارا نظام ڈیفنس اورینٹڈ ہوکر رہ گیا۔ اس کی وجوہات بہت گہری ہیں،جن کو قیام پاکستان کے اِردگرد ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔قیام پاکستان سے پہلے بانیان پاکستان کے ذہن میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جو نقشہ تھا وہ امریکہ اور کینیڈا جیسا تھا جس کا اظہار بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی کیا تھا ۔دونوں طرف انسانوں کا قتل عام اور آبادی کا انخلاء اور کشمیر کے حالات اور جنگ نے اس ان ساری اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ۔پاکستان اور بھارت دائمی اور مستقل مخاصمت اور آویزش کا شکار ہو کر رہ گئے۔ دونوں ملکوں نے آزادی کا پہلا سانس ہی کشمکش کی فضاء میں لیا اور اس کے بعد یہ مستقل آویزیش کی راہوں پر دوڑتے چلے گئے۔ بھارت نے پاکستان کو ٹکڑوں میں کاٹنے اوراس کو زخم زخم کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔بھارت کی اس دشمنی نے پاکستان کو مستقل طور پر عدم تحفظ کا شکار کئے رکھا اور پاکستان کو اپنے وسائل کا بڑا حصہ ریاست کو محفوظ بنانے کیلئے صرف کرنا پڑا۔اس حکمت عملی کیساتھ پاکستان معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہوتا چلا گیا ۔رہی سہی کسر دہشت گردی کیخلاف ہونے والی جنگ نے پوری کر دی۔ یہ عالمی طاقتوں کی خطے میں وسائل اور بالادستی کی جنگ تھی جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔پاکستان اس جنگ کی زد میں آگیا اور اس جنگ کو لڑتے ہوئے معاشی طور پر تباہ حال ہوا۔ اس کے ادارے کمزور ہوگئے۔ سیاحت اور صنعت جواب دے گئی اور اس کا بین الاقوامی امیج بھی منفی ہو کر رہ گیا۔اب بھی حالات پوری طرح بدلے نہیں۔ بھارت آمادہ فساد ہے اور بھارت کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کیلئے مغربی ملکوں کی تائیدو اعانت حاصل ہے۔اس کے باجود پاکستان میں اب تصور ریاست کو جیو سٹریٹجک سے بدل کرجیو اکنامک کرنے کی سوچ موجود ہے۔پاکستان کے گرد وپیش میں پراکسی جنگیں چل رہی ہیں۔ بھارت کے اپنے طویل المیعاد عزائم ہیں ۔بھارت کا سیکولر ازم تو پہلے ہی دکھاوا تھا اب اس میں بدترین نسل پرستی کی ذہنیت کا اضافہ ہو رہا ہے۔افغانستان بدامنی کی صلیب پر لٹکا ہوا ہے ۔یہاں کئی عالمی ایجنسیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ایران بھی عالمی دبائو کا شکار ہے اور اس کے اثرات سے پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ پاکستان اپنے اردگرد باڑھ لگا کر دہشت گردی سے محفوظ رہنے کی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ دہشت گردی کے سمندر میں امن کا جزیزہ بن کر رہنا آسان کام نہیں۔ پاکستان اپنی ضرورت کے تحت افغانستان میں قیام امن کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے تاکہ اس ملک میں ایک منظم حکومت کی رٹ قائم ہو جو حالات کی ذمہ داری قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔خطے میں امن کا ماحول ہوگا تو اس کے نتیجے میں اقتصادی اور سیاحتی سرگرمیاں فروغ پائیں گی، جس سے ملکی معیشت مضبوط ہوگی۔یوں عوام کو صحت،تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات حاصل ہوں گی۔ بیرونی خطرات کم ہوں گے تو دفاعی اخراجات اور جیو سٹریٹجک ریاست کا تصور ازخود جیو اکنامک تصور ہی نہیں بلکہ عملی شکل میں ڈھلتا چلا جائے گا۔ ریاست اور افراد کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت ریاست عوام کے حقوق کی پاسبان اورضامن ہوتی ہے ۔ریاست کی اس حق کے عوض عوام کو اپنے حصے کے فرائض ادا کرنا ہو تے ہیں جن میں پہلا فرض قانون کا احترام ہوتا ہے ۔قانون کا احترام حقیقت میں ریاست کی رٹ اور طاقت کا احترام ہوتا ہے ۔اس کے بعد ریاست وقتاََ فوقتاََ اپنے شہریوں سے جو قربانی طلب کرتی ہے عوام پر لبیک کہنا لازم ہوتا ہے ۔ایک بانجھ ریاست جو عوام کو کوئی سہولت نہ دے عوام کو دور کرنے کا باعث بنتی ہے ۔آج پاکستان میں بہت سی مشکلات کا تعلق اسی بات ہے کہ ریاست نان فنکشنل ہو کر رہ گئی ہے اور عوام کیساتھ اس کا تعلق کمزور پڑگیا ہے۔ انہیں ایک گاڑی روکنے اور انسانی جانوں کو کامیابی سے بچانے کا فن بھی نہیں آتا۔ ایک کے بعد دوسرا واقعہ رونما ہو رہا ہے جس میں پولیس معصوم لوگوں کو گاڑی روکنے کی کوشش میں زندگی کی قید سے ہی آزاد کر دیتی ہے۔مہارت اور صلاحیت کا یہی عالم ہر ادارے میں ہے ۔یہ وہ تمام عوامل ہیں جہاں ریاست اورعوام کے درمیان خلیج گہری ہوتی ہے ۔عوام خود کو زمینی اور حکمران کلاس اور ریاست چلانے والی اشرافیہ کو کسی اور ہی سیارے کی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں ۔اس خلاء کو غیر ملکی طاقتیں آسانی سے پُر کرنے میں کامیاب ہو تی ہیں ۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں