3 289

افواہ ساز فیکٹریاں اور اصلاح احوال

افواہ ساز فیکٹریوں سے برآمد ہونے والے مال کی مارکیٹ ویلیو صرف اس لئے عارضی طورپر اُٹھان کی جانب مائل تھی کہ میڈیا تو بجلی بندش کے ساتھ ہی آف سکرین ہوچکا تھا،اور صرف سوشل میڈیا پر ہی جو تبصرے، تجزیئے اور افواہیںچل رہی تھیں ان سے یہ اندازہ لگانے میں خاصی دشواری ہورہی تھی کہ اصل مسئلہ ہے کیا، کسی نے تخریب کاری کے بیانئے کو آگے بڑھایا، کسی نے مارشل لاء کے نفاذ کی بد خبری پھیلائی اور کہیں سے بھارت کے حملے کی افواہیں اُڑائی گئیں حالانکہ بات ”صرف” اتنی تھی کہ گدو پاور ہائوس پر سسٹم بیٹھ گیا تھا اور اطلاعات کے مطابق اس کی پاور50 سے صفر پر آگئی تھی مگر اس ”صرف” کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں پورا ٹرانسمیشن نظام ایک دوسرے سے مربوط اور منسلک ہے یعنی ایک پاور ہائوس میں بھی بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے تو اس کے سسٹم میں موجود تمام علاقوں کا بوجھ دوسرے، تیسرے پاور ہائوس پر منتقل ہو جاتا ہے، یوں اگر بروقت انتظام نہ کیا جائے تو پورا نظام ہی دھڑام سے نیچے آگرتا ہے۔ اب یہ گدو پاور ہائوس کیوں بیٹھ گیا، اس کا کارن متعلقہ ماہرین کے نزدیک تو ملک میں بڑھتی ہوئی سردی اور خاص طور پر ماحول کو دھند نے اپنی گرفت میں جس طرح لے رکھا ہے،اس نے فوری ازالے کی راہ میں مشکلات پیدا کیں یعنی فالٹ ایریا کا پتہ چلانا دھند کی وجہ سے ممکن نہیں تھا، اس لئے پورا نظام ہی دھڑام سے نیچے آگرا۔ اس پر جنرل ایوب خان کا بطور صدر دورۂ چین یاد آیا،تاہم اس پر آگے چل کر بات کی جائے گی، فی الحال تو اس حوالے سے دیگر احوال کا بیان کیا جائے، اور وفاقی وزیر اطلاعات کے اس تبصرے سے بات آگے بڑھائی جائے جو انہوں نے گزشتہ روز ان الفاظ میں کیا کہ لیگ (ن) نے ٹرانسمیشن سسٹم کی کمزوری کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جس نے اس صورتحال کو جنم دیا حالانکہ اب جو باتیں سامنے آرہی ہیں ان کے مطابق یہ مسئلہ جنرل پرویز مشرف کے دور سے یوں شروع ہوا کہ موصوف نے واپڈا کو چار حصوں میں بانٹ کر سارے سسٹم کا ناس کر دیا تھا، یعنی پاور الگ، واٹر الگ، ڈسٹری بیوشن سسٹم کو مختلف کمپنیوں کیسکو، لیسکو، پیسکو وغیرہ وغیرہ میں مزید تقسیم کر کے اس کی مرکزیت ختم کر دی تاہم یہ ضرور ہے کہ بعد میں پیپلزپارٹی اور لیگ(ن) حکومتوں نے بھی اس کی جانب توجہ نہیں دی، خصوصاً ٹرانسمیشن سسٹم کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی سے کام لیا مگر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی نصف مدت پوری کرنے کے باوجود اپنی ذمہ داری کا بوجھ کب تک سابقہ حکومتوں پر ڈالتی رہے گی؟اس حکومت نے کیوں اصلاح احوال کی کوشش نہیں کی؟ یعنی
تو درونِ در چہ کردی
کہ بیرونِ خانہ آئی
ادھر گزشتہ روز کے اس بریک ڈائون کے اثرات اندرون ملک ہی نہیں پڑے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے اثرات محسوس کئے گئے۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ایک بیان میںکہا ہے کہ اس وسیع پیمانے کی بریک ڈائون کی سمجھ نہیں آئی اور اس حوالے سے ہماری (امریکہ کی) تحقیقات جاری ہیں۔
ادھر بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان میں بریک ڈائون کے بعد بھارت کے اندر بھی ہائی الرٹ کے سگنل بھیجے گئے اور جس طرح ہمارے ہاں بھارت کی جانب سے کسی (خدانخواستہ) حملے کی افواہیں گردش کرنے لگ گئی تھیں، اسی طرح بھارت میں بھی خوف کا ایک عالم طاری ہوگیا تھا، ایک افواہ یہ پھیلائی گئی کہ بلوچستان کے علاقے نصیر آباد میں بلوچ علیحدگی پسندوں نے حملہ کر کے گرڈسٹیشن کو اُڑا دیا ہے، اگرچہ یہ افواہ ایک لحاظ سے درست تھی مگر افواہ پھیلانے والوں نے سوشل میڈیا پر دراصل 2015ء کی خبر ڈال دی تھی، یعنی پانچ سال پرانی خبر کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں والی صورتحال نے عوام کو چہ میگوئیاں کرنے پر مجبور کردیا تھا، جبکہ بدقسمتی سے سرکار کی جانب سے صحیح صورتحال کو واضح کرنے کیلئے کوئی اقدام سامنے نہیں آیا، بلکہ بعد میں معلوم ہوا کہ وزیراعظم اپنے سوشل میڈیا ایکٹیو سٹس کیساتھ اجلاس میں انہیں اپنے مخالف سیاسی رہنمائوں کیخلاف تابڑتوڑ حملوں کے حوالے سے مبینہ ہدایات جاری کر رہے تھے حالانکہ اب عوام صرف الزام تراشی کی سیاست سے عاجز آچکے ہیں اور اب سابق (مرحوم) صدر ایوب خان کے دورۂ چین کی بات کرتے ہیں کہ چین کے وزیراعظم نے ایوب خان کو ایک بہت بڑے ڈیم کا دورہ کرایا۔ ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اس سے کتنے علاقے میں بجلی فراہم کی جاتی ہے، صدر ایوب نے چو این لائی سے سوال کیا، جناب وزیراعظم اگر یہ ڈیم اچانک بند ہو جائے تو متبادل کیا ہوگا، چو این لائی نے جواب دیا ”بند ہو جائے؟ بند ہوگا ہی کیوں اور اگر ایسا ہوا تو ڈیم کے تمام انجینئرز بھی زندہ نہیں رہیں گے”۔ حکومت نے اگرچہ اطلاعات کے مطابق 7اہلکارمعطل کر دئیے ہیں مگر کیا اصل ذمہ داروں کا تعین ممکن ہوسکے گا یا پھر چند افراد کو ”قربانی کا بکرا” بنا کر معاملات نمٹا دئیے جائیں گے؟ بقول ڈاکٹر اظہاراللہ اظہار
آئینے لٹ گئے، چرانیاں آباد رہیں
آنکھ میںشہر کی ویرانیاں آباد رہیں

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!