5 286

سردی، بارش، برفباری اور گیس

سردی کا موسم ہے، ایسے میں زندگی کا مزا یہ ہے کہ کمبل میں لیٹے مونگ پھلی ٹھونگ رہے ہوں، بارش کے قطرے ٹین کی پرچھتی پر جلترنگ بجا رہے ہوں اور کمرے کے آتشدان میں آگ دہک رہی ہو لیکن اب یہ ساری باتیں بھی خواب وخیال ہوتی جارہی ہیں۔ مونگ پھلی پچھلے سال ڈھائی سو روپے فی کلو فروخت ہورہی تھی اب چار سو روپے تک جا پہنچی ہے لیکن شکر ہے باآسانی مل جاتی ہے اور سفید پوشوں کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے۔ رہا کمرے میں آتشدان کا معاملہ تو جب سے گیس آئی ہے آتشدان بجھ گئے ہیں، اب تو کمروں میں آتشدان بنائے ہی نہیں جاتے، ان کی جگہ گیس اور بجلی کے ہیٹروں نے لے لی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں گیس بھی وافر ہوتی تھی اور بجلی بھی لیکن آبادی میں اضافے کیساتھ ساتھ یہ دونوں چیزیں کم پڑتی چلی گئیں۔ اب سردیوں میں یہ حال ہے کہ گھروں میں چولہے جلانے کیلئے بھی گیس نہیں ہے تو ہیٹر جلانے کیلئے گیس کہاں ملے گی۔ ہر طرف ہاہاکار مچی ہے۔ بے شک سردیوں میں گیس کی کھپت بڑھ جاتی ہے لیکن اچھی حکومت وہی ہے جو عوام کی ضرورت کا خیال رکھے اور انہیں بے آرام نہ ہونے دے لیکن ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سینگ پھنسائے کھڑی ہیں اور عوام بے حال ہورہے ہیں۔ سنا تھا کہ قطر سے گیس آرہی ہے اور گیس کی قلت دور ہوجائے گی، اگر آئی تو کہاں گئی، ہر طرف گیس کا رونا پڑا ہوا ہے۔ گیس کا استعمال بھی زیادہ تر شہروں میں ہوتا ہے جبکہ دیہات اور قصبوں میں لکڑی بطور بالن استعمال ہوتی ہے، دیہات کے لوگ اس کا بندوبست پہلے سے کرلیتے ہیں وہ حکومت پر انحصار نہیں کرتے اور نہ ہی حکومت انہیں قابل توجہ سمجھتی ہے۔ اندرون سندھ چلے جائیں یا اندرون پنجاب لوگ حکومت اور اپوزیشن سے بے نیاز اپنے کام دھندوں میں مصروف نظر آئیں گے۔
ان کی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے
ساری سیاست شہروں میں ہے، کورونا بھی شہروں میں ہے اور میڈیا کے ذریعے روزانہ اموات میں اضافے کی خبریں مل رہی ہیں لیکن زندگی کا پہیہ بدستور رواں دواں ہے۔ بازار کھلے ہوئے ہیں اور ان میں خریداروں کا وہی ہجوم ہے جو بالعموم ہوا کرتا ہے۔ سرکاری و نجی دفاتر، کاروباری اداروں اور صنعتوں میں حسب معمول کام ہو رہا ہے، اگر کوئی شعبہ متاثر ہوا ہے تو تعلیم کا شعبہ ہے۔ تمام اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند ہیں، دینی مدرسے کھلے ہوئے تھے، انہیں بھی حکماً بند کرادیا گیا ہے۔ ایک ہو کا عالم ہے، البتہ اب کی دفعہ مساجد کھلی ہوئی ہیں اور ان میں نمازی سماجی فاصلہ یا ماسک پہنے بغیر باقاعدگی سے پنج وقتہ نماز ادا کررہے ہیں اور ان میں کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وضو بجائے خود سینی ٹائزر ہے، جب نمازی وضوع کرکے مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو وہ کورونا کو راستے میں ہی چھوڑ آتے ہیں اور یہ وبا مسجد میں داخل نہیں ہوپاتی۔ شکر ہے کہ مسجدیں آباد ہیں اور تبلیغی جماعت کے ارکان مساجد میں اپنے اجتماعات بھی کررہے ہیں ورنہ کورونا کی پہلی لہر کے دوران تو حکومت نے پنجاب میں مساجد کے باہر ٹائیگر فورس کھڑی کردی تھی جو معمر افراد کو مسجد میں داخل ہونے سے روک دیتی تھی۔ ہاں یاد آیا ٹائیگر فورس اِن دنوں کیا کررہی ہے؟ ہے بھی یا تتر بتر ہوگئی؟ پچھلے دنوں وزیرداخلہ شیخ رشید کا یہ بیان نظر سے گزرا تھا کہ حکومت سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ بند کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اگر ٹائیگر فورس ابھی تک برقرار ہے تو سب سے پہلے اس پر پابندی لگنی چاہیے کہ یہ بھی تو پی ٹی آئی کا عسکری ونگ ہے۔
بات سردی سے چلی تھی کہ ٹائیگر فورس تک جا پہنچی، اگر ٹائیگر فورس کہیں ہے تو وہ سردی سے ٹھٹھر رہی ہوگی۔ بہرکیف سردی نے اوسان خطا کررکھے ہیں، محکمہ موسمیات کہتا ہے کہ
ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی
ابھی میدانی علاقوں میں مزید سردی پڑنے کا امکان ہے، پہاڑی علاقوں خاص طور پر شمالی علاقہ جات میں تو درجۂ حرارت منفی پندرہ درجے سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے، آخر وہاں بھی لوگ رہ ہی رہے ہیں اور زندگی کیساتھ اپنا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جہاں نہ گیس ہے، نہ بالن ہی یہ افراط میسر ہے۔ ایک ہم ہیں کہ درجۂ حرارت محض صفر یا اور ایک دو درجے منفی ہونے پر چیخ اُٹھے ہیں۔ ذرا اندازہ کیجیے پورا یورپ اور امریکا اس وقت برفانی طوفان کی زد میں ہے، وہاں معمول کی برفباری بھی دس پندرہ فٹ سے کم نہیں ہوتی لیکن اس برف کو سڑکوں سے ہٹانے کا ایک مؤثر نظام موجود ہے۔ شدید ترین سردی اور برفباری میں بھی زندگی کا پہیہ حسب معمول چلتا رہتا ہے اور کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ یورپ میں گرمی نہیں پڑتی اس لئے قدرت ساری کسر سردی میں نکال لیتی ہے۔ ہم ایشیائی باشندے سردی اور گرمی دونوں موسموں کا لطف اُٹھاتے ہیں۔ سردی بھی بلا کی پڑتی ہے اور گرمی بھی قیامت کی۔ ان دنوں سردی پڑ رہی ہے تو ہمیں گرمیوں کے دن یاد آرہے ہیں۔ پھر جب گرمی آئے گی تو ہم سردی کا انتظار کرنے لگیں گے۔ سچ کہا ہے اللہ کی کتاب نے انسان بے صبرا بھی ہے اور ناشکرا بھی اسے کسی حال میں قرار نہیں آتا۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟