2 385

پناگاہیں،مفت خوری کی روایت میں بڑھاوا

اسلام خودی اور خودداری کا دین ہے، اس لئے ہر شخص کو انسان کی حیثیت سے احترام وتکریم سے نوازا ہے۔ اسلام میں حکمران اور عام آدمی کے درمیان بنیادی حقوق کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے، فرق صرف ذمہ داریوں کے حوالے سے ہے اور وہ عام فرد کی نسبت حکمران پر زیادہ ہوتی ہیں۔ انسان کی خودی اور تشخص تب مجروح ہوتی ہے جب وہ کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ اور جھولی پھیلاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں محنت مزدوری کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ سرکار دو عالمۖ نے صحابہ کرام کی جو جماعت (قوم) تیار فرمائی اُس کی پہچان حلال خوری تھی اور محنت ومشقت سے کمائی ہوئی روزی روٹی سے بہتر رزق اور کوئی نہیں ہوتی۔ اسی بناء پر صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں گداگری اور بھیک مانگنے کی لعنت سے اسلامی معاشرہ پاک وصاف تھا۔ ہاں حقیقت میں محتاجوں، ضرورت مندوں اور غریب غرباء اور معذور وغیرہ افراد کی مدد صدقات وزکواة کے ذریعے ایسے طریقے سے کی جاتی تھی کہ اُن کی عزت نفس مجروح نہ ہونے پائے اور پھر وقت گزرنے کیساتھ جب اسلامی حکومت کی بنیادیں مضبوط ہوئیں اور غنائم وزکوٰہ کی مد میں دولت میسر آئی تو بیت المال کا ادارہ اتنا مضبوط ہوا کہ حضرت عمر فاروق کے عہد مبارک میں مدینہ طیبہ میں زکوٰة لینے والا کوئی نہیں رہا۔ ہر پیدا ہونے والے بچے کیلئے وظیفہ مقرر تھا اور ضعیت وبزرگ غیر مسلم اقلیتیں جزیہ سے متثنیٰ ٹھہرائے گئے تھے اور ہر محتاج ومعذورکو گزر بسر کیلئے بیت المال سے وظیفہ ملتا تھا تاکہ کوئی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہو۔ اسلام کا یہی منشا ومقصود ہے جو اسلامی فلاحی حکومت کی صورت میں عوام الناس کیلئے خیر وفلاح کا سر چشمہ بن کر جاری رہتا ہے، جو لوگ صحتمند ہوتے ہیں، اُنہیں کسی صورت بھیک مانگنے یا مفت کھانے پینے کے عادی بنانے کی اسلام میں کسی صورت جواز نہیں۔ نبی اکرمۖ نے خود تجارت کا پیشہ اختیارکر کے صحابہ کرام اور رہتی دنیا تک مسلمانوں کیلئے سنت قائم فرمائی کہ ہر شخص محنت مزدوری کے ذریعے کما کر کھائے۔ ایک آدمی نے جب غربت کے ہاتھوں فاقے کی شکایت کی تو اُس کے گھر کے معمولی اثاثے کو بیچ کر اُس کو کلہاڑا اور رسی تھما کر دیا کہ جنگل سے لکڑی کاٹ کر لایا کرو اور بیچا کرو۔ چنددنوں بعد جب اُس شخص سے پوچھا تو اُنہوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔ اسی طرح ایک دفعہ ایک مزدور نے آپۖ سے مصافحہ کیا تو سخت کھردرے ہاتھ کرکے، آپۖ نے فرمایا ”اپنے ہاتھ سے (مزدوری کر کے) کمانے والا خدا کا دوست ہوتا ہے اور اُس کے ہاتھ کو بوسہ دیا”۔ آج کی ترقی یافتہ اقوام وممالک میں بہت سارے ایسے ہیں جہاں بھیک مانگنا قانوناً منع ہے، ہمارے ہاں کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ گداگری باقاعدہ ایک پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس کی کئی قسمیں ہیں، ایک وہ ہے جو یتیم اور بے سہارا بچوں کوکسی بہانے اپنے قبضے میں لے کر اُن سے باقاعدہ بھیک منگواتے ہیں اور رات کو اُن کو مخصوص ڈیروں پر لے جاتے ہیں۔ اس قسم کی مافیاز معذوروں اور بعض روایات کے مطابق بچوں، خواتین اور بوڑھے ومعذور لوگوں کو اغوا کر کے اس کام کیلئے باقاعدہ تربیت دیکر معاشرے میں پھیلا دیتے ہیں اور اب یہ اُن کا کاروبار بن گیا ہے۔
وطن عزیز میں اس مفت خوری کی عادت اور چسکے کو دیکھ کر مواصلات کی دنیا کی مختلف کمپنیوں نے ہمارے نوجوانوں کو مفت منٹ، مفت واؤچرز اور مفت جی بی کا ایسا عادی بنایا ہے کہ رات بھر اس سے لطف اُٹھاتے ہیں۔ اس لت نے پوری قوم کو ”مفتے” کا متلاشی بنا کر ذہنی اور جسمانی طور پر معذوری کے قریب بلکہ معذور بنا کر رکھ دیا ہے۔
عمران خان کی حکومت نے مختلف شہروں میں پناہ گاہوں کے نام سے جو سکیم متعارف کرائی ہے، غریب مسافروں، حقیقی محتاجوں اور معذوروں کیلئے اس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن جب کبھی وزیراعظم کو اُن کیساتھ مفت دسترخوان پر دیکھنے کا موقع ملا ہے اکثریت ہٹے کٹے اور صحت مند لوگوں کی ہی نظر آتی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غریبوں ومعذوروں کی مدد کرتے ہوئے کہیں محنت مزدوری کے قابل لوگوں کو بھی مفت خوری کی عادت نہ ڈلوائیں اور یوں وہ قوم جس میں پہلے سے سڑک اور فٹ پاتھ اور بازاروں میں بھیک مانگنے والوں سے لیکر سرکاری دفاتر تک میں صبح اپنی مرضی کے وقت پر کرسی پر چادر ڈال کر مفت خوری کے عادی لوگوں میں اور بھی اضافہ کا سبب نہ بن جائے۔
قوموں کے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑی وجہ اُن کی اکثریت کا معذور ومفت خور بننا ہوتا ہے۔ آج مسلمان اس لئے زوال پذیر ہیں کہ معاشرتی، اقتصادی، سیاسی اور علمی میدانوں میں ہم ترقی یافتہ اقوام کے مفت خورے مزاج کے بن گئے ہیں۔ ہمارے ہاں تعمیر اور معماریت کا ذہن بتدریج زوال پذیر ہوتا چلا گیا اور آج ہماری سیاست اور سیادت تک اس مفت خوری کا شکار ہو چکی ہیں، اس کا مظہر موروثیت ہے۔ آئیں مل کر ہر شخص اپنی جگہ پر معمار بن کر قوم کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں، بقول علامہ محمد اقبال
معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز
ازخواب گراں خواب گراں، خوابِ گراں خیز

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!