p613 233

بڑی مشکل صورتحال

بجلی ،گھی اورکوکنگ آئل کی قیمتوں میں ایک ساتھ اضافہ عوام کیلئے مہنگائی کا نیا باب کھولنے کے مترادف ہے، جو پہلے ہی منگائی کے ہاتھوں سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ معیاری اشیاء مناسب دام کا نعرہ یوٹیلیٹی سٹورز کے بورڈ پر لکھنے کے بعد حکومت کا یہ اقدام خود اپنے ہی لکھے دعوے کی سراسر نفی ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر گھی 22 روپے تک فی کلو مہنگا کردیاگیا ہے اور کوکنگ آئل کی قیمت میں بھی 27 روپے فی لیٹر اضافہ ہوگیا ہے۔ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمت بڑھانے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد یوٹیلیٹی سٹورزپرنئی قیمتوں کا اطلاق کردیاگیا ہے۔ اڑھائی ہفتے قبل بھی مختلف برانڈزکے گھی 43 روپے اور کوکنگ آئل 17 روپے فی لیٹر مہنگا کیا گیا تھا۔ دوسری طرف نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کی قیمت میں ایک روپے 6 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دیدی ہے۔ اب تو کوئی دن ایسا نہیںگزرتا کہ کسی چیز کے بحران، قلت اور قیمتوں میں اضافہ کی اطلاع نہیں آتی، مہنگائی میں اضافہ ہی مسئلہ نہیں بیروزگاری اور کاروبار کی تباہی کے تباہ کن اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے کورونا کے سماجی و اقتصادی اثرات کے بارے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے دوران لاک ڈائون سے 2 کروڑ 73 لاکھ افراد کے روزگار متاثر ہوئے اور 2 کروڑ 6 لاکھ افراد بیروزگار ہوئے، 66 لاکھ افراد کی آمدن میں کمی ہوئی، اس کے علاوہ مینوفیکچرنگ، زراعت، ہول سیل، ٹرانسپورٹ، تعمیرات، ودیگر شعبے کورونا سے بری طرح متاثر ہوئے جبکہ تعمیرات سے منسلک 80 فیصد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے۔ادارہ شماریات کے مطابق مینوفیکچرنگ سے 70 فیصد، ٹرانسپورٹیشن سے منسلک 67 فیصد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے جبکہ دیہی علاقوں کی 49 فیصد آبادی کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے، اس کے علاوہ ملک بھر سے 57 فیصد شہری آبادی کی آمدنی میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔سارے عوامل کے یکجا اور آئے روز عوام کو ریلیف دینے کی بجائے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے سے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ عوام کی اکثریت اب دو وقت کی روٹی کی محتاج ہوگئی ہے، اچھا خاصا کمانے والے اور کاروباری طبقہ کے پاس اب پیٹ پوجا کا سامان نہیں رہا۔مالیاتی مشیر کے پاس سوائے آئی ایم ایف سے خوشخبری ملنے کا مژدہ دینے کے اور کوئی بات عوام کے مفاد کا نہیں۔ حالات روز بروز سنگین ہوتے جارہے ہیں، حکومت نے اس کا احساس نہ کیا اور عوام پر مزید بوجھ ڈالنے سے گریز نہ کیا تو بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہوں گے جو حکومت اور معاشرے دونوں کیلئے سخت مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔
او ایس ڈی کلچر
خیبر پختونخوا میں گریڈ 20اور21کے سینئر ترین افسروں کی کئی ماہ سے گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرنا صوبائی حکومت کی میرٹ کی بناء پر تعیناتیوں پر سوالیہ نشان ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری افسروں سے کام لینے اور ان کے تجربات سے فائدہ اُٹھانے سے محروم ہونا بھی ہے۔ گھر بیٹھے افسروں کیلئے بھی یہ سبکی کا مقام ہے کہ وہ اعلیٰ گریڈ میں ہونے کے باوجود تہی دست اور ناکارہ ٹھہرگئے، اس طرح کی پالیسی اختیار کرنا سمجھ سے بالا تر اس لئے نہیں کہ حکومت کم گریڈ کے افسروں کو اچھے عہدوں پر فائز کر کے من پسند فیصلے کروالیتی ہے یا پھر کم گریڈ کے افسر اتنے بالادست ہیں کہ وہ سینئرز کو گھر بٹھا کر ان کی جگہ سنبھالے ہوتے ہیں۔ہمارے نمائندے کے مطابق پی سی ایس سیکرٹریٹ گروپ کے گریڈ21اور20کے6افسر کئی ماہ سے او ایس ڈی ہیں جبکہ دوسری جانب گریڈ19کے جونیئر افسروں کو نہ صرف اہم عہدوں پر سیکرٹری اورسپیشل سیکرٹری کی آسامیوں پر تعینات کردیا ہے بلکہ ڈائریکٹر جنرلز اور منیجنگ ڈائریکٹر ز کے اہم ترین عہدوں پر بھی گریڈ19کے جونیئر افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔ہر دو صورتوں میں یہ اہلیت ومعیار پر سنگین سوالات کا باعث ہے۔گریڈ اکیس اور بیس کے افسر ریٹائرمنٹ کے قریب ہوں گے، مدت ملازمت کے آخری سالوں میں ان سے اس طرح کا سلوک روا رکھنا ان کیلئے افسردگی کا باعث ہو نہ ہو، سرکاری خزانے سے تنخواہوں کی ادائیگی کے باوجود ان سے کوئی کام نہ لینا قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور قومی رقوم میں خیانت کے مترادف ہے۔ بلاوجہ کسی سرکاری افسر کو او ایس ڈی بنانے کا کوئی جواز نہیں اور ان کی جگہ جونیئر افسران کی تقرری اقرباء پروری وملی بھگت ہو نہ ہو اس کی کوئی تاویل پیش نہیں ہو سکتی۔ سرکاری محکموں میں تعینات افسران وملازمین سرکاری خزانے سے تنخواہ ومراعات لیتے ہیں ان کے گریڈ کے بقدر عہدے دینا اور ان سے کام لینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور چیف سیکرٹری کو اس معاملے پر غور کرنے اورمناسب فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے، سینئر اور تجربہ کار افسران سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟