2 386

پانچ سالہ حکمرانی کا ماڈل

پاکستان میں جو حکمرانی کا پانچ سالہ ماڈل رائج ہے’ یہ سوویت یونین کی ترقی سے متاثر ہو کر شروع کیا گیا تھا’ پانچ سال کو اس احسن انداز سے ترتیب دیا گیا کہ جس میں منصوبوں کا آغاز اور تکمیل ممکن ہو سکے۔ پاکستان نے 1950ء میں ترقی کا پانچ سالہ ماڈل پیش کیا’ جسے جرمنی نے اپنے ہاں رائج کیا اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا’ اسی طرح چین اور دیگر کئی ممالک نے پاکستان کے کئی سال بعد منصوبہ بندی کی’ انہوں نے جو ماڈل متعارف کرائے انہیں کامیابی ملی’ لیکن ہم جہاں سے چلے تھے وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اس سے بھی پستی میں جاگرے ہیں۔ امریکہ’ چین’ روس اور یورپی ممالک کی معیشتوں پر نظر دوڑائیں تو وہاں پر ہمیں طویل منصوبہ بندی دکھائی دیتی ہے۔ مسائل کے عارضی اور وقتی بندوبست کی بجائے وہاں پر مستقل بنیادوں پر حل تلاش کیا جاتا ہے’ ایوان سے منظوری حاصل کرنے کے بعد طویل منصوبہ بندی کی جاتی ہے جسے حکومت کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا’ دس’ بیس حتیٰ کہ پچاس سال کی منصوبہ بندی کی دنیا میں مثالیں موجود ہیں لیکن ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم کامل پانچ سال کی بھی منصوبہ بندی نہیں کر پائے ہیں’ اسلام آباد اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں جو منصوبے تکمیل کو پہنچے تھے’ اگلے دو تین سال میں معلوم ہوا کہ یہ منصوبے حالات کیساتھ مطابقت نہیں رکھتے ہیں’ اسلام آباد کو ایک ماسٹر پلان کے مطابق بنایا گیا’ لیکن اکثر لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ پرانے اسلام آباد اور نئے اسلام آباد میں بہت بڑا فرق ہے’ جگہ جگہ فلائی اووز اور انڈر پاسز کا جال بچھانے کے باوجود ٹریفک کے مسائل اپنی جگہ پر قائم ہیں’ اسی طرح میٹرو بس منصوبہ بھی اگرچہ قابلِ تحسین ہے لیکن ابھی سے معلوم پڑ رہا ہے کہ اس منصوبے سے جڑواں شہروں کے 15فیصد سے بھی کم لوگ مستفید ہو رہے ہیں جبکہ ہمیں ضرورت تھی کہ وسیع پیمانے پر طویل دورانیے کیلئے بندوبست کیا جاتا’ تاکہ آئندہ بیس یا پچاس سال کیلئے لوگوں کی سفری ضروریات پوری ہو سکتیں۔ چین میں اگرچہ یک پارٹی جمہوریت رائج ہے تاہم وہاں پر طویل منصوبہ بندی کی روایت قائم ہے’ چین نے اپنے چودھویں پانچ سالہ منصوبہ کو حال ہی میں حتمی شکل دی ہے’ جس کا دورانیہ2021ء سے2025ء تک مقرر کیا گیا ہے’ چین کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی مستقبل پر نظر ہوتی ہے اور چین اپنی بہترین منصوبہ بندی کی بدولت دنیا کے دیگر ممالک سے کئی سال آگے کھڑا دکھائی دیتا ہے، حالانکہ چین اپنے آپ کو ترقی پذیر ملک کہلانا پسند کرتا ہے’ چینی حکام کا ماننا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ترقی پذیر ملک اس لیے کہلانا پسند کرتے ہیں کیونکہ ابھی انہوں نے ترقی کی کئی منازل طے کرنا ہیں۔ چین میں سیاست چمکانے کی بجائے ملکی مفاد اور عوامی خواہشات کو سامنے رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ حکام کے منصوبوں کو عوامی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے جب ایک تقریب میں کہا کہ اقتدار میں آنے کی ان کی تیاری نہیں تھی تو ان کے بیان کا استہزاء اُڑایا گیا حالانکہ انہوں نے اس طرف نشاندہی کی تھی کہ جو بھی نئی حکومت قائم ہو پہلی حکومت کا یا قومی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ نئی قائم ہونے والی حکومت کو بریفنگ دے’ جیسا کہ امریکہ اور دیگر کئی ممالک میں ہوتا ہے’ ہمارے ملک میں نگران حکومت قائم کر دی جاتی ہے اور جانے والی حکومت سے پوچھ گچھ کی بجائے سارا ملبہ نگران حکومت پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نگران سیٹ اپ کی ضرورت ہی کیا ہے کیونکہ ان تین مہینوں میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس بارے کسی سے سوال نہیں کیا جاتا۔ بس نگران کہہ کر یا مختصر دورانیہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے چین میں نظام کچھ یوں ہے کہ پانچ سال کی منصوبہ بندی سے قبل گزشتہ پانچ سال کا مکمل جائزہ لیا جاتا ہے جو اہداف پورے نہ ہو سکے ہوں انہیں اگلی منصوبہ بندی میں شامل کیا جاتا ہے’ جب ہم پاکستان کے حالات کا اس تناظر میں جائزہ لیتے ہیں تو صورتحال یکسر مختلف دکھائی دیتی ہے’ یہاں سب سے پہلے تو سیاسی استحکام ہی قائم نہیں ہو پایا ہے’ دوسرے اگر کسی حکومت نے منصوبہ بندی کی کوشش کی بھی ہے تو طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے’ عوام کے ہاں مقبول ٹھہرنے کیلئے وقتی اور عارضی منصوبوں سے کام چلایا گیا’ اسی طرح جو بھی منصوبے شروع کیے گئے ان میں ملکی ترقی سے سیاسی مفادات کا عمل نمایاں رہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں اصلاحات کے نام پر جو بھی تجربات کیے گئے وہ مزید خرابی کا باعث بنے ہیں کیونکہ جتنے بھی دعوے کیے گئے ان میں قلیل المدتی منصوبوں کی بات کی گئی’ اسی طرح سیاسی رہنماؤں کی طرف سے عوام سے وعدہ کیا گیا کہ وہ نوے دن میں یا ایک سال میں ملک کی تقدیر بدل دیں گے’ حالانکہ ہمارے مسائل جس قدر بڑھ چکے ہیں اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما باہم مل بیٹھیں، ملکی مفاد اور عوام کی مشکلات کو سامنے رکھ کر طویل المدتی منصوبہ تشکیل دیں’ اس کے علاوہ جو بھی دعویٰ کیا جائے گا اسے یہی سمجھا جائے گا کہ اسے پاکستان کے مسائل کا ادراک ہے اور نہ ہی ان دعوؤں میں کوئی حقیقت ہے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس