3 291

بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کے لئے

بھانت بھانت کی خبریں ہیں سو ہم بھی کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا اکٹھا کر کے بھان متی کے کنبہ جوڑنے پر مجبور ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک کا ایک بیان گزشتہ روز اخبارات میں چھپا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ آئی ایم ایف سے اچھی خبر ملے گی۔ سوال مگر یہ اُٹھتا ہے کہ اس بیان پر خوشی سے بغلیں بجائی جائیں یا پھر عوام کیساتھ اظہار ہمدردی اور افسوس کیا جائے، کیونکہ مہاجن اور یہودی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بلامقصد گرنے کی غلطی نہیں کرتا، جبکہ آئی ایم ایف کو عالمی مہاجن کا درجہ حاصل ہے اور اس کے قرضے دینے کے پیچھے جو مقاصد ہوتے ہیں وہ تمام ترقی پذیر اور پسماندہ اقوام سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے، اس لئے وہاں سے اچھی خبر کا مقصد ومفہوم کیا ہوسکتا ہے اس کی وضاحت ایک پرانی فلم کا ڈائیلاگ سے ہوسکتی ہے جس میں ایک نوسرباز سے کوئی پوچھتا ہے کہ آپ کیا کرتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے، میں کاروبار کرتا ہوں، اور اِدھر کا مال اُدھر کرکے اُدھر کا سب مال اِدھر کرتا رہتا ہوں۔ بقول شاعر
شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں
وزیراعظم نے بھی ایک بیان میں بڑی پتے کی بات کی ہے کہ 22 کروڑ آبادی میں صرف 20 لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ اگر ان اعداد وشمار کو درست تسلیم کر لیا جائے تو یہ تعداد دس فیصد بھی نہیں بنتی، جس پر افسوس کا اظہار کیا جاسکتا ہے مگر بات ایک بار پھر وہی ”سچائی” سے چل کر ”رسوائی” کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے اور زیادہ دور کیوں جائیں کہ جن لوگوں (عوام) کو ٹیکس ادائیگی کا بہ الفاظ دیگر کوئی احساس نہ کرنے کا مرتکب قرار دیا ہے، جناب وزیراعظم نے تو وہ بے چارے اور کیا کر سکتے ہیں کہ وہ تو قدم قدم پر یعنی طوعاً وکرھاً اپنی استطاعت اور قوت برداشت سے بڑھ کر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں، ان سے وصول کئے جانے والے ٹیکس بلاشبہ اِن ڈائریکٹ کے زمرے میں یوں آتے ہیں کہ وہ کچھ بھی خریدیں ان پر لاگو کردہ ٹیکسوں کی ادائیگی لازم وملزوم کے کلئے کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اوپر سے حکومت مسلسل زندگی کے ہر شعبے پر ٹیکسوں کی بھرمار جاری رکھے ہوئے ہے، یوٹیلیٹی بلز، اشیائے خورد ونوش غرض زندگی کا وہ کونسا شعبہ ہے جہاں نہ صرف حکومت ٹیکسوں کی بھرمار جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ مختلف مافیاز جس طرح عوام کو لوٹ رہی ہے اور ساتھ ہی سرکار سے ٹیکسوں میں ریلیف بھی لے لیتی ہے، اس حوالے سے چینی مافیا کے قصے اتنے پرانے بھی نہیں یعنی برآمدات کی مد میں کروڑوں روپے وصول کرکے بھی افغانستان کو چینی برآمد کرنے کے ”جھوٹے” قصے وغیرہ وغیرہ، اور اب عام مارکیٹ کا توذکر ہی کیا، جب خود سرکار کی سرپرستی میں چلنے والے یوٹیلیٹی سٹورز پر بھی گھی، تیل، دال، صابن وغیرہ وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے تو پھر کسی اور سے کیا گلہ کیا جائے یعنی توقع ہی اُٹھ گئی کہ عام تاجر عوام پر رحم کریں گے۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ عوام تو اپنے حصے کے ٹیکس پوری طرح دے رہے ہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ دے رہے ہیں۔ ہاں البتہ جن کو ڈائریکٹ ٹیکس دینے چاہئیں انہوں نے ٹیکس بچانے (چوری کا لفظ استعمال کریں گے تو بعض کی طبیعت پر ناگوار گزرے گا) کیلئے ہزار حیلے بہانے ڈھونڈنے کا پہلے ہی اہتمام کر رکھا ہوتا ہے، بلکہ اُلٹا سبسڈی لے کر قومی خزانے کو ٹیکہ نہیں پورے ڈرپ لگا دیتے ہیں، یعنی یہ جو ماہرین ٹیکس بچاؤ کی خدمات لیتے ہیں وہ آخر کس مرض کی دوا ہیں؟ رہ گئے عوام تو اب وہ اپنی خیر منائیں کہ کہیں کل کلاں سرکار ان کے سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد نہ کر دے۔
بس کر میاں محمد بخشا موڑ قلم دا گھوڑا
ساری عمر دکھ نیوں مکڑیں ورقہ رہ گیا تھوڑا
سو ہم بھی قلم کے گھوڑے کا رخ تبدیل کرکے مولانا فضل الرحمن کے تازہ بیان کی جانب آتے ہیں جن سے گزشتہ روز کوئٹہ میں مولانا شیرانی کے حوالے سے ایک صحافی نے جب سوال کیا تو مولانا صاحب نے مسکراتے ہوئے ایک مصرعہ پڑھا کہ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں، گویا بقول ایک فلمی شاعر کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، اس سے پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر کے حالیہ بیان پر جس میں انہوں نے مولانا صاحب کے راولپنڈی کی جانب مارچ کا رخ کرنے کے جواب میں کہا تھا کہ وہ آئیں ہم انہیں چائے پانی پلا دیں گے، مولانا صاحب نے بھی خوش ذوقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چائے پر ابھی نندن کو ٹرخایا گیا تھا، ہمیں اس کے برابر تو نہ سمجھیں یعنی چائے کیساتھ ”کچھ اور” بھی کھلائیں۔ اس حوالے سے مولانا صاحب نے بٹ خیلہ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تھوڑی سی وضاحت کی تھی جس پر کم ازکم ہم کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے، کیونکہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کی شامت والا مقولہ ہر کوئی بخوبی جانتا ہے، تاہم اس پر اتنا تبصرہ بے ضرر کے زمرے میں آتا ہے یعنی بقول ہارون عدیل
میں تو بس اک کوئی کمخواب سا دل ڈھونڈتا ہوں
کوئی تجھ سے تری اطلس کی قبا مانگتا ہے

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں