4 277

بھارت دشمنی ہمارا مقدر

قوموں کے مقدر میں اہم کردار اُس فلاسفی کا ہوتا ہے جس کی بنیاد پر قومیں اور ملک وجود پاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا وجود فرانسیسی مفکر مانیتسکو کے نظریہ تفریق اختیارات اور جان لاک کے معاہدہ عمرانی کا مرہون منت ہے۔ اس لاکین فلاسفی کے تحت امریکہ کو جو معاشرتی وجود عطا ہوا وہ جان کا تحفظ ‘ مساوات ‘ آزادی اور خوشی کا حق جیسی چار بنیادی ستونوں پر کھڑا ہے۔ آج کے امریکہ میںکوئی ان بنیادی حقوق سے انحراف کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور یہی امریکہ کی سوا دو سو سالہ تاریخ ہے۔ اسی طرح پاکستان اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ اسلام کی وجہ سے دو قومی نظریے کی تحریک چلی اور ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں جغرافیائی حدود کی بنیاد پر قومی ریاستیں بن رہی تھیں ‘ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ایسے ملک کی حیثیت سے اُبھرا جو مذہب کی بنیاد پر بنا تھا۔ اگرچہ یہ بات تھیوری کے اعتبار سے ہے اور عملی اعتبار سے بہت کچھ ہونا ابھی باقی ہے تاہم مذہب اور ریاست کا ایک حسین امتزاج پاکستان میں دیکھا جا سکتا ہے۔ حضرت قائد اعظم نے جب کہا تھا کہ ہم دنیا کو دکھا دیں گے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود اسلام کے اصول آج بھی ویسے ہی قابل عمل ہیں تو ان کی بات کو گذشتہ 72برس کی تاریخ نے درست ثابت کیا ہے۔ پاکستان کا وجود اسی صورت قائم رہ سکتا ہے اور مزید توانا ہو سکتا ہے جب کہ ہم اسلامی نظریہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک ماڈل فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔ کچھ ایسی ہی بات برسوں قبل عوامی جمہوریہ چین کی بابت کہی گئی تھی۔ پندرہ سولہ سال قبل عوامی جمہوریہ چین میں ایک سروے کیا گیا کہ چین اپنی موجودہ ترقی کو کیسے جاری رکھ سکتا ہے۔ اس بات پر عمومی اتفاق تھا کہ اگر چین نے اپنی ترقی کو قائم و دائم رکھنا ہے تو دو کام کرنے از حد ضروری ہیں۔ اول ‘ چین کو کسی صورت بھی کمیونسٹ نظریے کو نہیں چھوڑنا کہ جس کی وجہ سے عوامی جمہوریہ چین کا وجود قائم ہوا اور چین میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی۔ دوم’ کمیونسٹ پارٹی کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہے کیونکہ یہ کمیونسٹ نظریے اور تحریک کی محافظ ہے۔
اب آئیے اس بدقسمتی کی طرف جو آج کا کالم لکھنے کا سبب بنی اور جو ہمارے وطن پاکستان کے وجود کے درپے ہے۔ یہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کی اکھنڈ بھارت کی فلاسفی ہے جس کی وجہ سے بھارت ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے خطاب میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ بھارت پاکستان میں شیعہ سنی فساد کروا کر انتشار پیدا کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں عدم استحکام کرنے کی اس نے جو کوششیں کی ہیں اس سے عام پاکستانی آگاہ ہے۔ ایران کے راستے بلوچستان میں اپنے جاسوس بھیجنا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو مالی امداد دے کر پاکستان کیخلاف کارروائی کرانا یہ سب اس سوچ کا شاخسانہ ہے جو اول دن سے بھارتی فلاسفی کا حصہ ہے۔ مستزاد یہ کہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد چانکیہ ازم پر رکھی جس کا بنیادی نکتہ ہمسایہ ریاستوں کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔ قبل مسیح کے براہم فلسفی کوٹلہ چانکیہ کے پیش کردہ حکمرانی کے اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہر پڑوسی ریاست دشمن جبکہ ہمسایہ کا ہمسایہ دوست ہوتا ہے۔ گزشتہ 73برس کی ہندوستانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہمسائیوں سے تعلقات میں چانکیہ ازم کی پیروی کی جا رہی ہے اور یہ اس لیے ہے کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم نہرو چانکیہ سے بہت متاثر تھے۔ انہوں نے دہلی میں ڈپلومیٹک انکلیو کا نام چانکیہ پوری رکھا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اول دن سے بھارتی اکھنڈ بھارت سوچ کا شکار ہے۔ پاکستان نے تعلقات کی بحالی اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کیلئے ہمیشہ سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں کی ہیں لیکن ان کے جواب میں بھارت نے وقت گزاری کی ہے اور ہر وہ کام کیا ہے جس سے پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہو۔ پاکستان نے بھارت میں عدم استحکام پھیلانے کی کبھی کوشش نہیں کی البتہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے بھارت پر دبائو ضرور ڈالا ہے کیونکہ یہ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ حال ہی میں یورپی یونین کی ڈس انفارمیشن لیب نے یورپ میں بھارتی نیٹ ورک کا انکشاف کیا ہے جو جعلی میڈیا اور نقلی تھنک ٹینکس پر مشتمل ہے جس کا مقصد پاکستان مخالف مہم چلا کر اس کی ساکھ کو متاثر کرنا ہے۔ ہم نے گزشتہ 73سالوں میں ہندوستان کیساتھ صلح جوئی کی جتنی بھی کوشش کی اس کا انجام باالخیر نہیںہوا چنانچہ یہ طے ہے کہ بھارت کبھی بھی پاکستان مخالف سوچ سے باز نہیں آ سکتا۔ پاکستان کے اہل دانش’ حکومت اور ریاستی اداروں کو اس بنیادی نکتے کو پیش نظر رکھ کر پاکستان کی دفاعی اور جارحانہ حکمت عملی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بھارت سے دوستی ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر ممکن نہیں ہے لہٰذا ہمیں بھارت دشمنی کو اپنا مقدر سمجھ کر اپنی خارجہ و داخلہ پالیسی کو ترتیب دینا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟