2 390

اُستاد کریم خلیلی کا دورۂ پاکستان

کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے بے رحمانہ قتل کے بعد افغانستان کے ہزارہ لیڈر اُستاد کریم خلیلی کا دورۂ پاکستان بہت سے حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ یوں تو یہ دورہ افغان قیادت کے پاکستان کیساتھ اچھے مراسم کی کوششوں کا حصہ ہے اور انہی کوششوں کے نتیجے میں سابق وزیراعظم گل بدین حکمت یار سمیت کئی افغان راہنما پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں مگر اُستاد کریم خلیلی کی ایک خاص موقع پر آمد اور یہاں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں اپنا ایک خاص پس منظر رکھتی ہیں۔ اُستاد کریم خلیلی کیلئے پاکستان نیا ہے نہ پاکستان کیلئے اُستاد نئے اور اجنبی ہیں۔ اُستاد کریم خلیلی کی جماعت حزب وحدت اسلامی افغانستان اس سات جماعتی افغان اتحاد کا حصہ رہی ہے جس نے سوویت یونین کی افواج کیخلاف جنگ لڑی اور بعد میں عبوری اور مستقل حکومتوں کا حصہ رہی۔ یوں اس اتحاد کے رکن کے طور پر استاد کریم خلیلی بھی پشاور اور کوئٹہ کے مکین رہ چکے ہیں۔ حزب وحدت اسلامی کے سربراہ استاد عبدالعلی مزاری تھے مگر اتحادی سرگرمیوں میں ہمیشہ استاد کریم خلیلی کا نام ہی نمایاں رہا ہے۔ عبدالعلی مزاری طالبان کے ظہور کے بعد ان کے ہاتھوں گرفتار ہو کر شہید ہوگئے تھے۔ حزب وحدت افغانستان کی ہزارہ آبادی کی نمائندہ جماعت ہے اور اس کا افغانستان کی پاورگیم میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ استاد عبدالعلی مزاری کے بعد استاد کریم خلیلی ہی اس جماعت کے پلیٹ فارم سے نمایاں رہے۔ افغانستان کے سات جماعتی اتحاد کی صف اول کے قائدین میں پروفیسر صبغت اللہ مجددی، پروفیسر برہان الدین ربانی، مولوی یونس خالص، پیر احمد گیلانی اس دنیا سے چلے گئے ہیں اور اب ان میں صرف گل بدین حکمت یار، استاد عبدالرب رسول سیاف اور استاد کریم خلیلی ہی حیات ہیں۔ پاکستان ماضی کے ان دوستوں کیساتھ تجدید تعلقات کیساتھ ساتھ افغانستان کے دوسرے حلقوں تک رسائی اور راہ رسم قائم کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ استاد کریم خلیلی کا دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس دورے سے چند ہی دن پہلے بلوچستان مچھ میں گیارہ کان کنوں کو نہایت بیدردی سے قتل کیا گیا اور اس واقعے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ دہشت گردی کی اس لرزہ خیز واردات کے بعد پاکستان میں ایک نئے تنازعے کو فروغ دینے کا کھیل شروع ہوا۔ غم زدہ لواحقین کا ہر مطالبہ جائز تھا مگر پاکستان میں سیاسی داؤ پیچ کیلئے تاک میں بیٹھے ہوؤں نے اسے حکومت سے حساب برابر کرنے کا ایک موقع جان کر اپنا کام شروع کیا۔ کئی روز تک یہ موضوع پاکستان کی عام آبادی اور میڈیا میں زیربحث رہا۔ حکومت کو ایک تحریری معاہدے کے تحت احتجاج ختم کرانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ ریاست اور حکومت کیلئے ایک بھرپور جھٹکا تھا جس سے سنبھلنے کے بعد افغانستان کے ہزارہ لیڈر استاد کریم خلیلی پاکستان آئے اور یہاں ان کی ملاقاتیں وزیراعظم، آرمی چیف اور وزیر خارجہ سے ہوئیں۔ پاکستان کی طرف سے انہیں بتایا گیا کہ مستحکم افغانستان میں پاکستان کا اپنا مفاد ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے ہزار ہ لیڈر کو بھارت کی ان کوششوں سے آگاہ کیا گیا جو وہ افغانستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کیلئے جاری رکھے ہوئے ہے۔ استاد کریم خلیلی نے کہا کہ پاکستان نے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے میں بہت مدد کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قومی سطح پر امن کی خواہش موجود ہے اور افغان عوام امن کے طلب گار ہیں۔ غالب امکان ہے کہ پاکستان کی طرف سے استاد کریم خلیلی سے افغان حکومت پر اثر انداز ہونے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی ہوگی۔ افغان حکومت پر اب بھی ایسے عناصر کا غلبہ ہے جنہیں بھارت کی سرمایہ کاری تو قبول اور گوارا ہے مگر پاکستان کے ذریعے حاصل ہونے والا امن قبول نہیں۔ اس لئے وہ تازہ دم ہو کر امن کوششوں میں اپنے بیانات اور طرزعمل سے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ داعش جو ہزارہ برادری کے قتل عام کے اکثر واقعات میں ملوث پائی گئی ہے افغانستان میں موجود ہے اور داعش کی سرپرستی اور معاونت کے بارے میں سابق صدر حامد کرزئی کو سلطانی گواہ بنایا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں امن کی خواہش اور بدامنی کی کوششیں دونوں متوازی انداز سے جاری ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب استاد کریم خلیلی پاکستان کے اعلیٰ حکام سے افغانستان میں قیام امن کی باتیں کر رہے تھے تو عین اسی وقت دوحہ میں امریکہ اور طالبان مذاکرات کے حوالے سے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی افغان ہم منصب محمد حنیف اتمار سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں جنگ زدہ ملک کو مزید خاک وخون میں نہلانے کے عہد وپیماں ہو رہے تھے۔ بھارتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق جے شنکر کا کہنا تھا کہ طالبان کیساتھ امریکہ کے مذاکرات نتیجہ خیز ہوتے ہی بھارت افغان حکومت کی فوجی امداد میں اضافہ کردیگا۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کرکے پانچ ہزار سے پچیس سو تک لائے گا۔ امریکہ کی اس انداز سے موجودگی محض علامتی ہوگی۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ