5 290

کیا امریکی پالیسیاں تبدیل ہوں گی؟

امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے ہر تین لاطینی امریکی باشندوں میں سے دو نے جوبائیڈن کو ووٹ دیا لیکن جوبائیڈن سے بڑی توقعات کی صرف یہی وجہ نہیں ہے، باراک اوباما جب صدر منتخب ہوئے تھے تو انہوں نے اپنے نائب ”جوبائیڈن کو لاطینی امریکی امور کی ذمہ داریاں سونپی تھیں اور اب اس بار کے صدارتی الیکشن کی مہم شروع ہوتے ہی جوبائیڈن نے واضح کیا تھا کہ وہ اپنی تمام تر توجہ لاطینی امریکی پالیسی پر مرکوز رکھیں گے۔ ماہرین ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن سے زیادہ تعاون پر مبنی روئیے کی توقعات رکھتے ہیں۔ جو بائیڈن نے پیدائشی طور پر کولمبیائی سیاستداں سباستیان، گنزالیز کو امریکا کے مغربی نصف حصے کی سلامتی کا مشیر نامزد کر دیا ہے۔ بائیڈن اور ان کے مشیرکو اس خطے کے متعدد مسائل کے حل کیلئے کافی کچھ کرنا ہوگا۔ لاطینی امریکی باشندوں کے چند کلیدی مسائل میں ہجرت یقینی طور پر اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں جلد ہی اپنے منصب سے رخصت ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش رہی کہ امریکا کی طرف ہر طرح کی امیگریشن کو ممکنہ طور پر روکا جائے۔ اس کے برعکس جو بائیڈن ان مہاجرین کے خواب کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو بہت بچین میں امریکا اس لئے ہجرت کر گئے تھے کہ انہیں امریکی شہریت مل جائے گی۔ امریکا کیلئے سب سے بڑا مسئلہ میکسیکو کی جنوبی سرحد ہے، جہاں اربوں انسانوں کیلئے ایک بہتر مستقبل کا خواب صرف مغرب سے جڑا ہوا ہے۔ ان افراد کو تاہم جو بائیڈن ”ریڈ کارپٹ پر خوش آمدید نہیں کر سکتے، نہ ہی انہیں اس اُمید میں رہنا چاہئے کہ ان کیلئے راتوں رات سرحد کھول دی جائے گی لیکن جو بائیڈن پناہ کی درخواستوں پر تیزی سے عمل درآمد چاہتے ہیں اور امریکا میں پناہ کے متلاشیوں کو ٹرمپ دور سے زیادہ درخواستیں دینے کے مواقع دینا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئی امریکی حکومت کا موٹو ہوگا ”فرار اور ترک وطن کی وجوہات کیخلاف جنگ”۔ جو بائیڈن نے وسطی امریکا میں حکومتوں کیلئے غربت اور تشدد کے خاتمے کیلئے مجموعی طور پر چار ارب ڈالر کی امدادی رقم مختص کی ہے۔ یہ امدادی رقوم تاہم جن کاموں کیلئے مختص کی گئی ہیں، انہی پر خرچ ہونی چاہئیں اور اس سلسلے میں قانون کی حکمرانی پر سخت نظر رکھی جائے گی۔ میکسیکو کے علاوہ جو بائیڈن کی توجہ گوئٹے مالا، ایل سلواڈور اور ہونڈوراس پر بھی مرکوز ہے۔ ان تینوں ممالک میں حکومتی سطح پر گوناگوں مسائل پائے جاتے ہیں، جن کا تعلق بدعنوانی، آمرانہ طرز حکومت اور منشیات کی اسمگلنگ وغیرہ سے ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کو اس وقت سب سے زیادہ پریشانی کوووڈ19 سے لاحق ہے۔ نہ صرف اس مہلک بیماری بلکہ اس کیخلاف بہت سی حکومتوں کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کے سبب اقتصادیات زمین بوس ہو کر رہ گئی ہیں۔ لاطینی امریکا کیلئے بائیڈن کے دور صدارت میں کوئی بڑا معاشی محرک پیکیج نہیں ہوگا تا ہم ان کی بھرپور طبی امداد کی جائے گی، خاص طور سے ویکسین کی تقسیم کی صورت میں۔ ماہرین کے مطابق امریکا اب بھی لاطینی امریکا کو تجارتی شراکت دار کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جنوبی امریکا میں صحت کا بحران دراصل زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمالی امریکا کی طرف نقل مکانی یا ہجرت کی وجہ بنا ہوا ہے۔ جو بائیڈن کیلئے چین کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ قومی سلامتی کیلئے ایک خطرے کی حیثیت رکھتا ہے، جس کی ذمہ داری وہ سبکدوش ہونے والی ٹرمپ حکومت کی قیادت کی کمزوری پر عائد کرتے ہیں۔ جو بائیڈن جب باراک اوباما کے دور صدارت میں ان کے نائب تھے، تب بھی امریکا چین کے اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے کچھ خاص نہیں کر سکا تھا۔ دریں اثنا میکسیکو ہی خطے کا وہ واحد بڑا ملک ہے، جو اب بھی حقیقی معنوں میں امریکا سے جڑا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر باقی خطوں میں چین اہم ترین اقتصادی پارٹنر ہے۔ کئی دیگر ریاستوں میں سرکاری مالی اعانت کا انحصار بہت زیادہ چین پر ہے۔ مثال کے طور پر ایکواڈور اپنے تیل کا ایک بڑا حصہ چین کو فروخت کرتا ہے۔ باراک اوباما کے دور میں امریکا کی کیوبا کیساتھ بڑھتی ہوئی قربت کو بہت سے مبصرین ”حد سے زیادہ اُمید افزاء قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکا میں کیوبا کے جلاوطنوں کا موجودہ صدارتی انتخابات میں کردار کافی متنازعہ تھا۔ فلوریڈا میں اکثریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا، جنہوں نے اپنی صدارتی مدت کے آخری دنوں میں کیوبا کو ”دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے ممالک کی فہرست میں ڈال دیا۔ یہاں جو بائیڈن کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہوگا۔ اس ریاست میں 2017 میں ڈیموکریٹس کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جو بائیڈن حکومتی دور میں کیوبا کو اس فہرست سے نکالنے کی بجائے وینزویلا کو بھی اسی فہرست میں شامل کرنے پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن