1 361

انصافی قاری کا خط اور جواب آں غزل

عزیزم محمد شفیق غوری گاہے گاہے کالموں پر تبصرہ ای میل کے ذریعے کرتے رہتے ہیں۔ تحریر نویس اور قاری کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہی اصل چیز ہے۔ گزشتہ شب ان کی ای میل موصول ہوئی، غوری صاحب کہتے ہیں ”شاہ جی لگتا ہے آپ مخمصے کا شکار ہیں۔ دل پی ڈی ایم کی محبت میں دھڑکتا ہے، دھڑکنا بھی چاہئے کیونکہ اے این پی اور پیپلز پارٹی اس میں شامل ہیں، پھر آپ کے محبمحترم مولانا فضل الرحمن اس اتحاد کے سربراہ بھی ہیں۔ آپ بھی دوسروں کی طرح حکومت کا دھڑن تختہ چاہتے ہیں لیکن یہ بتا دیجئے کہ کیا اس حکومت کو اس لئے رخصت ہونا چاہئے کہ پی پی پی اور نون لیگ گلی محلوں میں خوار ہو رہی ہیں، مولانا بھی اسمبلی سے باہر ہیں، جو الزامات 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے ہیں وہیں 2013ء کے حوالے سے بھی تھے، تب آپ لوگ خاموش رہے، بولے بھی تو صرف اتنا کہ جمہوریت کو آگے بڑھتا رہنے دیں۔ اب جمہوریت کو آگے بڑھنے دیجئے، یا یہ فرما دیجئے کہ جمہوریت کے جملہ حقوق پی ڈی ایم کی جماعتوں کے حق میں محفوظ ہیں۔ پی پی پی اور نون لیگ نے اپنے اپنے ادوار میں لوٹ مار کے ریکارڈ بنائے، کسی دن نون لیگ کیخلاف لکھے ہوئے اپنے ہی کالم وقت نکال کر پڑھ لیجئے تاکہ کچھ افاقہ ہو۔ عمران خان کی قیادت میں پہلی بار دو جماعتی نظام کا طلسم ٹوٹا، ملک کو ایک ایسی حکومت ملی جو کرپشن، اقربا پروری اور تجاوزات پر یقین نہیں رکھتی۔ میں پچھلے 15برسوں سے آپ کا قاری ہوں، کبھی کبھی کالم پر دو سطری تبصرہ بھی بھیج دیتا ہو، مجھے یہ عرض کرنے دیجئے کہ آپ بھی حکومت وقت کیخلاف جانبداری کا شکار ہیں، صرف بھٹو کی محبت میں کرپٹ پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرتے تھے، اب پی پی پی کے دامن میں پناہ لے چکی نون لیگ کا دفاع بھی فرض سمجھ بیٹھے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم آپ کی کیا مجبوریاں ہیں لیکن یہ ضرور عرض کروں گا اپنی لائبریری سے باہر نکل کر لوگوں سے بھی ملاکر، تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ عمران خان کی قیادت میں گزشتہ اڑھائی سالوں کے دوران ملک میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں اور لوگ سابق لٹیروں سے کس قدر تنگ تھے۔ شاہ جی! جان اللہ کو دینی ہے، بھٹو کو نہیں، کبھی حق کی بات بھی کر لیا کریں۔ عمران خان اس وقت صرف پاکستان کی ہی نہیں عالم اسلام کی بھی آخری اُمید ہے، درویش وزیراعظم ہے، رشتہ داروں کو نہیں نوازتا، نہ فضول خرچی کرتا ہے، عوام اور ملک کا درد اس کے دل میں ہے، 73 برسوں کا گند صاف کرنے میں وقت تو لگے گا، صبر کیجئے پاکستان ایک دن جنوبی ایشیاء کی قیادت کرتا دکھائی دے گا”۔ عزیزم محمد شفیق غوری نے اپنے محبت نامہ میں اس سے سوا دو باتیں بھی لکھیں، انہیںکالم کا حصہ نہیں بنایا اس کیلئے معذرت، البتہ یہ وضاحت کئے دیتا ہوں کہ عقیدہ خالصتاً فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔
آپ خط پڑھ چکے، پی ٹی آئی کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان بارے تحریر نویس کے خیالات بھی آپ جانتے ہیں، سچی بات یہ ہے کہ میں کسی مخمصے کا شکار نہیں ہوں، اس معاشرہ کے ایک فرد کے طور پر موسم محسوس ہوتے ہیں، تعلقوں کا احترام بھی کرتا ہوں، پسند وناپسند بھی یقیناً ہے۔ پاکستان کے انتخابی نظام بارے میری آج سے نہیں 1985ء سے یہ رائے ہے کہ پُراسرار قوتیں عوام کی رائے پر ڈاکہ ڈالتی ہیں،2018ء کے انتخابی نتائج متنازعہ ہیں لیکن مجھ طالب علم کی رائے وہی ہے جو 2013ء سے2018ء کے درمیان تھی، بلاشبہ میں پی ڈی ایم کی حمایت کرتا ہوں لیکن ان دوستوں کی بعض باتوں سے اختلاف بھی ہے اور کھل کر ان پر اپنی رائے دیتا ہوں، پانامہ میں پکڑیں اور اقامہ میں سزا دیں اور پھر سزا کا بھید کھل جائے تو میں کیا کروں؟۔ پچھلے اڑھائی سالوں کے دوران مہنگائی کے خودکش حملوں نے لوگوں کی جو درگت بنائی وہ سب کے سامنے ہے۔
سر تسلیم خم کہ ماضی کے حکمران چور تھے، عدالتوں میں ثابت کیجئے سزائیں دلوائیے، ٹی وی چینلز پر ادہم مچانے اور منہ بھر کے گالیاں دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سادھو سنت حکومت کے دور میں ادویات، چینی، گندم اور آٹے کے سکینڈلز آئے، ذمہ داروں کیخلاف کیا کارروائی ہوئی؟ عالم اسلام صرف نصابی، کتابی اور خوابی باتیں ہیں، اس کا عملی وجود تھا نہ ہے۔ پاکستان ہے، ہم اسی میں بستے ہیں یہی حقیقت ہے، آخری اُمید کوئی نہیں ہوتا، ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ دونوں جماعتوں سے لوٹے وصول کر کے بنی تحریک انصاف کو اکتوبر2011ء میں کس نے گود لیا، پروان چڑھایا اور اقتدار دلوایا، یہ درون سینہ راز نہیں ہے۔ الحمد اللہ پیپلزپارٹی پر اس کے دور اقتدار میں انہیں کالموں میں کھلی تنقید کی، تب بہت سارے جانباز زرداری کے دسترخوان پر مصروف تھے۔ کالم نویسی ذاتی نفرت یا محبت پر نہیں دستیاب معلومات پر کرتا ہوں۔ نون لیگ کی چور حکومت گروتھ ریٹ 5.3فیصد چھوڑ گئی تھی، آج کتنے فیصد ہے؟ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ بکھر چکا، لوگ ایک وقت کا کھانہ مشکل سے کھا پاتے ہیں۔ اڑھائی برسوں میں دودھ اور شہد کی نہریں کسی نے نہیں نکالیں، حالات پچھلے سے زیاہ خراب ہیں، تو میں کیسے کہہ لکھ دوں کہ سب اچھا ہے؟۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی