p613 237

جمہوری روایات پر عمل ناگزیر ہے

وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کایہ کہنا بجا ہے کہ اپوزیشن احتجاج کا حق رکھتی ہے لیکن جمہوری اقدار کی پاسداری لازم ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کو مذاکرات کا عندیہ نہیں دیا۔ اپوزیشن مذاکرات کے لئے تیار ہو تو حکومت اپنا ایجنڈا پیش کرے گی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ مخدوم صاحب جیسا سینئر سیاستدان اس امر سے لاعلم ہے کہ اپوزیشن سے اختلافی معاملات طے کرنے کے لئے مذاکرات کی دعوت جمہوری روایات کے مطابق حکومت کو دینی چاہئے۔ بر سراقتدار جماعت کو ہمیشہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے تاکہ نظام کے آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو، البتہ ان کی یہ بات درست ہے کہ احتجاج کے نام پر قانون شکنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یقینا یہ امر خود اپوزیشن کے رہنمائوں کے مدنظر بھی ہوگا کہ حزب اختلاف اپنی احتجاجی تحریک میں بھی صبر وتحمل کے ساتھ اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ کوئی ایسا قدم اُٹھایا جائے جس سے انار کی پیدا ہو نے کا خطرہ ہو۔حکومت اور اپوزیشن جمہوری نظام میں لازم وملزوم ہیں، دونوں کھلے دل سے ایک دوسرے کے جمہوری پارلیمانی اور قانونی وجود کو تسلیم کر کے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہر دو کا آگے بڑھنا درحقیقت نظام کو آگے بڑھانے اور قانون کی عملداری کے لئے ضروری ہے۔ اگلے روز وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ وزیراعظم نے ان کی سربراہی میں حزب اختلاف سے مذاکرات کے لئے کمیٹی قائم کر دی ہے، ایسا ہے تو یہ خوش آئند بات ہے۔ اس کمیٹی کے قیام سے یہ عمومی تاثر بھی زائل ہوا کہ وزیراعظم اپوزیشن سے مذاکرات کی بجائے اسے رگیدنے کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے جمہوری وقانونی حق کے باوجود عوام الناس کی اکثریت اس امر کی خواہش مند ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اختلافات کو طے کرنے کیلئے مذاکرات کا راستہ اپنائیں، البتہ یہ بہت ضروری ہے کہ دونوں فریق اس بات کا خیال رکھیں کہ جمہوریت کے مسلمہ اصولوں سے انحراف نہ ہونے پائے اور نا ہی کوئی ایسا قدم اُٹھایا جائے جس سے بحران پیدا ہو۔ یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم کی قائم کردہ مذاکراتی کمیٹی کو دوقدم آگے بڑھ کر اپوزیشن کو مذاکرات کی غیرمشروط دعوت دینی چاہئے اور اگر دعوت دی جاتی ہے تو اپوزیشن بھی پیشگی شرائط بغیر دعوت قبول کر کے مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ ماضی میں ایک سے زائد مواقع پر اپوزیشن کے بعض رہنمائوں کا یہ موقف رہا کہ مذاکرات اس صورت میں ممکن ہیں جب وزیراعظم مستعفی ہوں، ہماری دانست میں یہ مطالبہ قبل از وقت تھا اور ہے۔اپوزیشن کی بنیادی شکایات دوتین ہی ہیں اولاً یہ کہ2018ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور اس دھاندلی کے ذریعے پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کی گئی۔یہاںیہ سوال اہم ہے کہ سندھ میں اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت پیپلزپارٹی کی حکومت ہے تو کیا سندھ کے انتخابی نتائج کو اس الزام کے تناظر میںدیکھا جائے گا یا اس کے لئے کوئی الگ پیمانہ ہوگا؟ بہرطور اب جبکہ وزیراعظم نے اپوزیشن سے مذاکرات کے لئے کمیٹی قائم کرادی ہے تو یہ اُمید کی جانی چاہئے کہ شیخ رشید احمد کی سربراہی میں قائم کمیٹی پی ڈی ایم کی قیادت کومذاکرات کی دعوت دے گی، مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوں اور اس امر کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت کے ذمہ داران الزاماتی سیاست کو کچھ عرصہ کے لئے ملتوی کر کے اپنے حقیقی فرائض پر توجہ دیں۔ اپوزیشن بھی خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوابی الزامات سے اجتناب کرے۔اندریں حالات اس امر پر دو آراء نہیں کہ وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹی قائم کر کے جمہوری روایات کے مطابق اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ سیاسی عمل کے دونوں فریق سڑکوں پر گتھم گتھا ہونے کی بجائے مل بیٹھ کر اختلافی امور پر بات چیت کریں اور ایسا حل تلاش کریں جس سے نظام بھی چلتا رہے اور شکایات کے ازالے کی کوئی صورت بھی بن پائے۔یہ بات اپنی جگہ سوفیصد درست ہے کہ جمہوریت میں حرف آخر نہیں ہوا کرتا، جمہوریت برداشت، تحمل،مذاکرات اور مفاہمت سے ہی پنپتی ہے۔ مذاکرات کے دروازے حکومت بند کر ے یا اپوزیشن یہ جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ یہ درست ہے کہ اگر حکومت مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہے تو پھر اسے پہل کرتے ہوئے اپنے وزیروں ،مشیروں اور ترجمانوں کو ایسی بیان بازی اور الزام تراشی سے روکنا ہوگا جس سے مذاکراتی عمل آغاز سے قبل ہی دم توڑدے۔اس امر کی جانب مکرر توجہ دلانا لازم ہے کہ مذاکرات کے لئے ساز گار ماحول بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔اور یہ کہ محض مذاکراتی کمیٹی بنادینے سے حکومت کا فرض پورا نہیں ہو جاتا بلکہ اگلے مراحل کے لئے ضروری اقدامات میں تاخیر نہیں برتی جانی چاہئے۔اُمید واثق ہے کہ حزب اقتدار اورحزب اختلاف کے ذمہ دار قائدین اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ اختلافی مسائل مذاکرات کے ذریعے طے ہوجائیںتاکہ ارباب حکومت اپنی حقیقی ذمہ داریوں پر توجہ دے سکیں۔

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد