2 391

جنوبی ایشیا ایک نئی ”فالٹ لائن”

کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات 5 اگست2019 سے منجمد ہو کر رہ گئے ہیں۔ شاید تاریخ میں پہلی بار دونوں ملکوں کے تعلقات کا گراف اس قدر نچلی سطح پر پہنچا ہو۔ ماضی کے کشیدہ ادوار کے برعکس موجودہ حالات میں کہیں سے بھی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے نام پر آنکھ مچولی جاری رہنے کی کوئی اطلاع نہیں۔ ماضی کے ایک ایسے ہی کشیدگی سے بھرپور دور میں جب کرگل کی جنگ بھی جاری تھی اور دوسری طرف بھارتی قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا اور کچھ دوسرے افراد پاکستانی حکام کیساتھ ٹریک ٹو مذاکرات میں مصروف دکھائی دیا کرتے تھے۔ اس بار پاک بھارت تعلقات پردے کے آگے اور پیچھے ایک جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا سے وابستہ نوجوانوں کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے قطعیت کیساتھ کہا ہے کہ بھارت کیساتھ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی تک مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ موقف حقیقت میں ریاست پاکستان کا سوچا سمجھا مؤقف ہے۔ پانچ اگست کے بعد سے پاکستان نے ایک واضح لکیر کھینچ رکھی ہے۔ لکیر کے ایک طرف وہ ممالک ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی انداز میں بھارت کے اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور دوسری طرف اس فیصلے سے نظریں چرانے والے ممالک ہیں جن کیساتھ بقول عمران خان اب تعلقات کا ٹمپریچر اوپر نیچے رہنے لگا ہے۔ پانچ اگست کے بعد کے حالات بتا رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کیلئے تر نوالہ نہیں رہا بلکہ اس ڈیڑھ برس نے کشمیر کو بھارت کیلئے ” گرم آلو” بنا رکھا ہے۔ اس تنازعے کے تین فریق پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام تو تہتر برس سے ایک مخصوص کشیدگی کی کیفیت میں ہیں مگر ان برسوں میں ایک غیرفعال ”فالٹ لائن” پانچ اگست کے بعد یکایک فعال ہو گئی ہے۔ اس خاموش اور خوابیدہ فالٹ لائن کا نام عوامی جمہوریہ چین ہے۔ چین کی مسئلہ کشمیر کی موجودہ انداز میں سرگرمی کا ایک تاریخی تناظر ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ مدتوں پہلے چین کا موقف اس سے کچھ مختلف تھا جس کی بنیاد مغربی طاقتوں اور اقوام متحدہ کے حوالے سے شک اور خوف کے جذبات تھے۔ امریکہ کے واشنگٹن ڈی سی میں قائم وڈرو ولسن سینٹر کے آرکیاوز میں16فروری1957 کی اس گفتگو کا ریکارڈ موجود ہے جس میں چین کے وزیراعظم ژوہوانلائی نے بیجنگ میں مقیم پاکستانی سفیر کیساتھ اقوام متحدہ کے کردار پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ پاکستانی سفیر مسٹر احمد اس وقت کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی کا ایک خط لیکر چینی وزیراعظم سے ملے تھے جس میں مسٹر سہروردی نے چین سے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کے موقف کی حمایت کی اپیل کی تھی۔ آرکیاوز میں موجود ملاقات کے منٹس کے مطابق چینی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم سے اقوام متحدہ کے بارے میں بات مت کیجئے ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہم اس ادارے سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ کشمیر کے مسئلے کے حل میں تحمل اپنائیں جس کا مظاہرہ ہم سات آٹھ سال سے تائیوان کے معاملے میں کر رہے ہیں۔ چینی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سامراجی طاقتیں ایشیا میں کشیدگی کو تصادم میں بدلنا چاہتی ہیں یہ بہت خطرناک ہے اور اقوام متحدہ کی کشمیر میں مداخلت سے اچھی چیز برآمد نہیں ہوگی۔ سامراجی طاقتیں کشمیر میں تصادم کی آگ بھڑکانا چاہتی ہیں۔ تریسٹھ سال گزرنے کے بعد چین عالمی ادارے میں کشمیریوں کے حق کا سب سے بڑا وکیل اور ترجمان بن کر اُبھرا ہے۔ بالخصوص پانچ اگست کے بعد چین کے کردار نے پاکستان کو اس کا معترف اور مداح بنا دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان پانچ اگست کے بعد چین کے کردار کی تعریف کر چکے ہیں۔ اس عرصے میں چین تین بار سلامتی کونسل میں کشمیر کی صورتحال پر بحث کرا چکا ہے۔ چین نے پہلی بار کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کھلے بندوں عمل درآمد کرانے کا مطالبہ1964 میں کیا جب وزیراعظم ژوہوانلائی پاکستان کے دورے پر آئے۔ اس موقع پر جنرل ایوب خان نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل ہوناچاہئے۔ چینی وزیراعظم نے اس کی تائید کی۔ اس سے ایک برس پہلے چین اور پاکستان لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے حوالے سے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کر چکے تھے جس میں کشمیر کو متنازعہ تسلیم کرتے ہوئے سرحدی تنازعہ کا عبوری حل تلاش کیا گیا تھا۔ تنازعے کا یہ کمبل اب بھارت کیساتھ چمٹ کر رہ گیا ہے اور ایک نئی فالٹ لائن کی فعالیت بن گئی ہے جس کے مقابلے کیلئے اب بھارت دومحاذوں کی جنگ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اس پر مستزاد پاکستان کے وزیراعظم کا یہ اعلان ہے کہ پانچ اگست کا فیصلہ واپس لئے بغیر بھارت کیساتھ مذاکرات کی بحالی ممکن نہیں۔ چین دونوں پڑوسی ملکوں سے تحمل، برداشت سے کام لینے اور مسئلہ کشمیر کو پرامن انداز میں حل کرنے کیلئے زور ڈالے ہوئے ہے۔ اس میں نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن اور پانچ اگست کے اقدامات کی کڑی ناقد نائب صدر کمیلا ہیرس کی تھوڑی سی کوشش بھی شامل ہو جاتی ہے تو جنوبی ایشیا کا موجودہ جمود اور تناؤکم ہونے کا معجزہ رونما ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟