4 280

ہمارے خواب سچ کہاں ہوتے

خواب وہ لوگ دیکھتے ہیں جنہیں نیند آتی ہے۔ بھلا ہم اس کی جرأت کیسے کریں کہ دنیا میں آئے دن جو واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ان کے ہوتے ہوئے نیند آ جائے اور ہم خواب دیکھنے لگیں۔ ہم نے اکثر وہی ڈراونے خواب دیکھے ہیں جو معروف مصنفہ میری شیلے نے 1816میں دیکھے تھے جس کے پس منظر میں انہوں نے پہلا سائنس فکشن فرینکنسٹین ناول لکھا تھا۔ اگر ہماری آنکھ لگ بھی جاتی ہیں تو ہم برف پوش وادی میں پہنچ جاتے ہیں جہاں آج کل سر شام ہی ڈراؤنی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جو بعض مرتبہ نمازیوں کو مسجدوں یا باہر جانے سے روکتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ میری شیلے کے ہزاروں فرینکنسٹین کشمیر کی وادی میں پہنچے ہیں اورمظلوم لوگوں کی نیندیں چرا رہے ہیں۔یہ ایک اور حربہ ہے خوف پیدا کرنے کا۔ اس وجہ سے لوگ زیادہ تر راتوں کو بیدار رہتے ہیں اور خواب دیکھنے سے کتراتے ہیں۔تھامس ایڈیسن کو یاد کرنے کا زمانہ ہی نہیں رہا جنہوں نے بیشمار خوابوں کے نتیجے میں ایسا بلب ایجاد کردیا تھا جس نے دنیا کو تاریکی سے نجات دلائی تھی۔ کاش ایسا بلب بھی بنایا ہوتا جو مظلوم قوموں کی تاریکی کو مٹاتا تاکہ اس کی آڑ میں جنوں اور بھوتوں کا ہوا کھڑا کر کے آبادیوں کو خوف زدہ کرنے کی نوبت نہ آتی۔لیکن امریکی بھی آج کل ہماری صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ سنتالیس فیصد لوگوں نے صدر ٹرمپ کے اس خواب کو حال ہی میں حقیقت میں بدلنے کی کوشش کی تھی جو وہ اکثر نیند میں بڑ بڑاتے رہتے تھے کہ امریکہ میں ایسا کوئی مائی کا لال پیدا نہیں ہوا ہے جو انہیں2025سے پہلے وائٹ ہاس چھوڑنے پر مجبور کر دے۔ کسے معلوم تھا کہ خواب کی تعبیر اتنی بری نکلے گی کہ اپنی مدت کے خاتمے سے چند روز قبل پہلے ہی وائٹ ہاس کو الوداع کہنے کا خطرہ پیدا ہو جائے۔ اس وقت35فیصد امریکی اس سوچ میں پڑے ہیں کہ بائیڈین بننے کا خواب بھی نہیں دیکھنا چاہیے جنہیں کرسی خالی رکھنے کیلئے فوج بلانی پڑی۔ خود امریکیوں کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ کیا وہ کیپٹیل ہل کا منظر دیکھ رہے ہیں یا عراق میں صدام حسین کے محل کو گرانے کا۔ اس وقت ٹرمپ کے ہزاروں مداح شکلیں بدل بدل کر ان کرسیوں پر براجمان ہو رہے تھے جن پر بیٹھنے کیلئے50سے60سال تک کی سیاسی تپسیا کرنی پڑتی ہے۔ ویسے زمانہ کچھ بدل گیا ہے، اب لوگ زیادہ تر چینی چھینک سے پریشان ہوتے ہیں جس کو دنیا میں جاری موجودہ بحران اور تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ہم جیسے پچھڑے اور پہاڑوں پر رہنے والے لوگ ایسا خواب دیکھنے سے بھی گھبراتے ہیں جو بھارت کے وزیر اعظم نے اس دور سے پالا ہوا ہے جب وہ جھولا لے کر ہندوتوا کی تپسیا میں آر ایس ایس کے تربیتی مراکز پر جایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں وہ خواب میں ہمیشہ خود کو مہاراجہ اشوک کے تخت پر براجمان دیکھتے ہیں جنہوں نے جنگی فتوحات سے ہندوستان کی سرحدوں میں وسیع و عریض توسیع کی تھی۔ عمران خان نے کئی بار اپنے خواب کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا ہے لیکن میں اس پر کچھ نہیں کہنا چاہتی کیونکہ یہ دین کا معاملہ ہے۔ اس پر صرف مولانا طارق جمیل یا مولانا منیب الرحمن ہی بات کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ میں بس نیند کا بہانہ کرتے کبھی سوچتی رہتی ہوں کہ1400سال پہلے کے اس دور میں کتنی جاہلیت رہی ہوگی؟ عوام کی سوچ بدلنے میں کتنی مشکلات آئی ہوں گی؟ مجھے ویسے خوابوں میں بھٹکنے کی عادت ہے۔ اسی لیے ان کے ذریعے دیگر ممالک پہنچ جاتی ہوں۔ دراصل میں نے جو خواب دیکھنے کی جرأت کی ہے وہ میں نے غلط وقت پر دیکھا ہے۔ سہ پہر میں، جی ہاں میں اپنی کھڑکی سے لندن کی سنسان سڑک پر دور دور نظریں دوڑاتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ کرونا(کورونا) وائرس جب ختم ہو جائے گا اور پروازیں بحال ہو جائیں گی تو میں کشمیر پہنچوں گی۔ سبھی قومی دھارے اور حریت کے بچے گچھے رہنماں سے ملاقات کروں گی، ان کے سامنے عرضی ڈالوں گی کہ کشمیر کی شناخت کے لے متحد اور اکٹھے ہو جائیں۔ اس قوم کے نوجوانوں کو موت کے پنجوں میں جانے سے روکیں، بچوں کی تعلیم کا کوئی طریقہ نکالیں، عورتوں کو دس لاکھ فوجی نظروں سے بچانے کیلئے کوئی حکمت عملی ترتیب دیں، گھریلو تجارت اور زمین کو بچانے کیلئے کوئی منصوبہ بنائیں مگر ذہن خوف سے کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ کرونا کی وجہ سے نہیں بلکہ خوف اس بات کا ہے کہ کیا کشمیری سیاست دان میری بات سنیں گے اور کیا قوم کو بچانے کے آگے اپنی انا پر قابو پائیں گے؟ لہٰذا میں اس خواب کو ذہن میں ہی دفن کر دیتی ہوں۔مایوس ہو کر ریڈیو سننے لگتی ہوں جس میں بورس جانسن کی شدید تنقید کی جا رہی ہوتی ہے۔ انہوں نے کرونا بندشوں کے باوجود جسمانی ورزش کیلئے سائیکل پر لمبی دوڑ لگائی ہے۔ جب سے انہیں کرونا ہوا ہے تب سے وہ یہ خواب دیکھنے لگے ہیں کہ وہ کیسے اپنا وزن کم کریں۔ ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے خوابوں پر کتنا کچھ لکھا ہے کاش وزن کم کرنے کے خواب کا تجزیاتی نسخہ بھی بتایا ہوتا تاکہ کرونا میں مبتلا موٹے لوگوں کو کچھ تو فائدہ ہوتا۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد