3 297

آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

یادش بخیر، کیا حسین دن تھے، لڑکپن سے لیکر جوانی کے دور کی یادیں اُمڈ کر سامنے آگئیں، خبر ہے کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹری ریجنل آفس پشاور اور افغان قونصلیٹ پشاور مارچ کے مہینے میں صنعتی نمائش منعقد کرے گا۔ غالباً 1954-55ء کا زمانہ یاد آگیا، جب شاہی باغ کے اس حصے میں جسے اب پردہ باغ کا نام دیا گیا ہے یہاں افغان فٹ بال گرائونڈ ہوتا تھا، جسے اب طہماس خان فٹ بال گراؤنڈ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، صنعتی نمائش کا انعقاد ہوتا تھا، اس میں میرے والد صاحب نے بھی جن کے پاس یعقوب بسکٹ فیکٹری سکھر کی پورے صوبہ سرحد (کے پی) کی ایجنسی تھی، سٹال لگایا تھا، تاہم ملک کی دو بڑی کا سمٹکس کمپنیوں کے سٹال عوام کی دلچسپی کا باعث تھے کیونکہ دونوں کی مصنوعات کی خریداری پر موٹر کاریں انعام میںملنی تھیں، مجھے یاد ہے کہ ان میں سے ایک موٹرکار پشاور کے سادات خاندان کے ایک اہم چشم وچراغ اور شاعروادیب سید مظہر گیلانی مرحوم کے نصیب میں لکھی تھی۔ اسی نمائش کے ایک حصے میں سکیٹنگ رِنگ بھی قائم تھا،جس کے اندر پائوں کے ساتھ پہئے باندھ کر ایک دونوجوان لہرالہرا کر دوڑتے پھرتے تو لوگ حیرت سے انہیں تکتے اور بعض شوقین سٹال ہولڈر سے کرائے پر سکیٹس حاصل کر کے دوڑنے کی کوشش کرتے، تو زندہ لطیفے جنم لیتے یعنی تھوڑا چلتے اور گر پڑتے تو تماشائی پیٹ پکڑ کر رہ جاتے، بعد میں اس صنعتی نمائش کو قیوم سٹیڈیم منتقل کر دیا گیا اور جشنِ خیبر کے نام سے ہر سال گرمی کے دنوں میں تقریباً ڈھائی مہینے پشاور کے عوام اس نمائش سے محظوظ ہوتے۔ ملک بھر کے صنعتی ادارے سرگرمی سے اس میں حصہ لیتے، کمپنی ریٹ پر مصنوعات فروخت کی جاتیں، جشن خیبر میں اور بھی دلچسپی کا بہت سامان ہوتا، ایک جانب اولمپیا سرکس کے نام پر کھیل تماشے ہوتے، سرکس میں جھولوںپر دوغیرملکی خواتین جمناسٹک کا مظاہرہ کرتیں اورعام طور پر لوگوں کا جم غفیر انہی کیلئے اُمڈ آتے۔ ہاتھیوں، گھوڑوں، شیروں کے کھیل بھی اہمیت رکھتے جبکہ مسخروں کے مزاحیہ کرداروں کا بھی ایک خاص حصہ تھا۔ سرکس کے سنگ موت کا کنواں بھی توجہ حاصل کرتا، جس میں دو تین موٹر سائیکل سواروں کے علاوہ موٹرکار پر بھی حیرت انگیز مظاہرہ کیا جاتا۔ شاہی باغ والے نمائش کے حوالے سے ایک بات تو رہ گئی تھی اور وہ موت کا گولہ تھا۔ لوہے کے جال کا بنا ہوا ایک بہت بڑا فٹ بال ہوتا، اس کے اندر بھی موٹر سائیکل پر کرتب سے تماشائی حیرت میں پڑ جاتے، تاہم بعد میں موت کا گولہ کسی اور مقام پر دیکھنے کو نہیں ملا، البتہ اب یوٹیوب پر موت کے گولے والے کرتب وائرل ہیں، جشن خیبر کا سب سے بڑا ایونٹ ایک کیول کیڈ (Cavelcade) تھا جس کے ذریعے برصغیر پر صدیوں سے درہ خیبر کے راستے حملہ آور ہونے والوں کی تاریخ زندہ کرداروں کی شکل میں لوگوں کو محظوظ کرتے، اس کی ذمہ داری اباسین آرٹس کونسل اور ریڈیو پاکستان کی مشترکہ کاوش کے نام ہوتی۔ اس کا سکرپٹ اور رواں تبصرہ میرے اُستاد محترم مرحوم باسط سلیم صدیقی کے ذمے ہوتا، یہ سلسلہ تین چار روز تک جاری رہتا اور تقریب کے مہمان خصوصی صدر پاکستان جنرل ایوب خان ہوتے، جبکہ اسی کا حصہ دو اور تقریبات بھی ہوتیں، یعنی کل پاکستان مشاعرہ اور محفل موسیقی، جن میں پاکستان بھر کے صف اول کے شعرائے کرام شامل ہوتے جبکہ محفل موسیقی میں بھی جید موسیقار اور گلوکار شریک ہوتے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ نمائش کے اختتامی دن قریب آتے تو پشاور کے عوام کی فرمائش پر پندرہ روز اضافی دے دیئے جاتے، اس دور میں جی ٹی ایس کی بسیں ہشتنگری سے پشاور یونیورسٹی کے درمیان چلتیں، ان میں ڈبل ڈیکر بسیں بھی ہوتیں جو رات دس بجے اپنی سروس بند کر دیتیں مگر جشن خیبر کے دوران یہ بسیں رات گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تک چلائی جاتیں تاکہ نمائش سے لطف اندوز ہونے کیلئے لوگوں کو آنے جانے کی تکلیف نہ ہو، جبکہ بسوں کی تعداد بھی بڑھا دی جاتی اور جب گیارہ ساڑھے گیارہ بجے نمائش بند ہو جاتی اور لوگ نکل آتے تو اپنے گھروں تک جانے کیلئے سواری کاکوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ نمائش کے آخری دنوںمیں جن کمپنیوں کے سٹالوں پر بڑے انعامات رکھے گئے ہوتے اور پورے سیزن کے دوران خریداروں کو انعامی کوپن جاری کئے جاتے، جن کا ایک حصہ سٹالوں کے آگے رکھے بند ڈرموں میں ڈال کر کائونٹر فائل اپنے پاس محفوظ رکھ دیتے، تو قرعہ اندازی کے ذریعے انعامات تقسیم ہوتے، یہ قرعہ اندازی باری باری مختلف سٹالوں پر ہوتی اورلائوڈسپیکر کے ذریعے انعامات حاصل کرنے والے کوپنوں کے نمبرز کا اعلان کیا جاتا۔ اس روز تو صورتحال یہ ہوتی گویا پورا شہر نمائش گاہ میں اُمڈ آیا ہے، پھر یہ سلسلہ بند ہوگیا، کئی برس بعد ایک بار پھر صنعتی نمائش کے نام پر نشترہال کے گرائونڈ میں پرانی صنعتی نمائش کی نقل کی کوشش کی گئی مگر اسے ”مذاق” کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ بہرحال اب دیکھتے ہیں کہ جس صنعتی نمائش کی نوید دی گئی ہے وہ کس حد تک حقیقی صنعتی نمائش کی ضرورت پوری کرتی ہے۔
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟