1 363

لہولہان کابل’ افغان حکومت کیا سوچ رہی ہے؟

کابل میں سپریم کورٹ کی دو خواتین ججز جسٹس ذکیہ اور جسٹس قادرے کی دہشت گردوں کے حملے میں شہادت (اس واقعہ میں تین افراد زخمی ہوئے) کے واقعہ نے تحریر نویس کے ان خدشات کو تقویت پہنچائی ہے کہ کچھ قوتیں بین الافغان مذاکرات کی کامیابی نہیں چاہتیں۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ خواتین پر حملہ اور انہیں قتل کرنا افغان روایات کے منافی ہے، البتہ مجھے سعداللہ تاجک کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ”روایات واقدار کے احترام کے زمانے گزر گئے، دہشت گردوں سے روایات کے احترام کی توقع خود کو فریب دینے کی کوشش ہے”۔ سعداللہ تاجک درست کہتے ہیں، میرے یہ افغان دوست 2017ء میں اپنا مادر وطن اس وقت چھوڑنے پر مجبور ہوئے جب ایک ہی وقت میں افغان حکومت، طالبان اور داعش تینوں ان کی جان کے دشمن ہوگئے۔ سعد کابل یونیورسٹی کے طالب تھے، وہ یونیورسٹی میں جمنے والی طلباء وطالبات کی محفلوں میں کھلے عام کہا کرتے تھے کہ ابھی ہم طالبانائزیشن کے زخموں کو نہیں بھر پائے کہ افغان حکومت امریکہ کے تعاون سے داعش کو افغانستان میں قدم جماتا دیکھ رہی ہے لیکن بولتی نہیں۔ وہ سوال کرتے، کیا داعش کا افغانستان آنا امریکہ اور افغان حکومت کا مشترکہ منصوبہ ہے؟ میدان جنگ بنے افغانستان کو چھوڑ کر سعد پہلے برطانیہ گئے، اب امریکہ میں لاطینی امریکہ کے ایک ملک میں مقیم ہیں۔ساعت بھر کیلئے رُکئے، افغانستان کی صورتحال پر یہ فقط سعد کی رائے نہیں، افغان نوجوانوں کی اکثریت بھی سعد کی طرح سوچتی ہے۔ خود اس تحریر نویس کو اپنے افغان دوستوں کے مؤقف سے اتفاق ہے۔ دو دن قبل کابل میں سپریم کورٹ کی دو خواتین ججز کا قتل معمول کی دہشت گردی ہرگز نہیں، اس کا بنیادی مقصد افغان نظام (وہ جیسا بھی ہے) کی بنیادیں ہلانے کیساتھ دہشت کی وہ فضا دوبارہ مسلط کرنا ہے جس سے نجات کیلئے افغانوں نے بہت قربانیاں دیں۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ طالبان امن معاہدہ اور پھر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات کیلئے ابتدائی سمجھوتہ کے بعد بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے کون ہوسکتا ہے جو افغان معاہدہ امن اور بین الافغان مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے؟ اس سوال پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو ایک ہی جواب ملتا ہے ”داعش”۔ تو کیا داعش اپنے خالقین میں سے ایک امریکہ کی مرضی کے بغیر سرگرم عمل ہے؟ کیا امریکی اس امر سے لاعلم ہیں کہ داعش کے بھارت کیساتھ روابطہ استوار ہوئے اورکیا اسلامک سٹوڈنٹ موومنٹ جو داعش کو افرادی قوت فراہم کر رہی ہے اور بھارت کے وہ مالیاتی ادارے جو داعش کی مالی مدد میں مصروف ہیں ہر دو کا یہ عمل بھارتی حکومت کی منشا کے بغیر ہے؟ اسے سمجھنے کیلئے ہمیں امریکی کانگریس کے ایک تھنک ٹینک کی چند ماہ قبل کی اس رپورٹ سے رجوع کرنا ہوگا جس میں کہا گیا تھا کہ داعش کو افرادی قوت اور مالیاتی مدد بھارتی حکومت کی رضامندی سے فراہم ہورہی ہے۔ بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ انتہا پسند بھارت سے باہر چلے جائیں تاکہ یہ کشمیر اور دوسرے علاقوں کی مزاحمتی تحریکوں کا حصہ نہ بن سکیں۔ خیر ہم آگے بڑھتے ہیں، افغان ادارے اس امر سے آگاہ ہیں کہ داعش معاہدہ امن کیخلاف برسرپیکار ہے۔ کیا یہ افغان حکومت کی مجبوری ہے یا امریکی آقاؤں کی خوشنودی، کہ حقائق سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں؟ ایک بات طے ہے وہ یہ کہ داعش ”دولت اسلامیہ خراسان” کے قیام کا ایجنڈا رکھتی ہے، اس کی دولت اسلامیہ خراسان میں افغانستان، پاکستان اور بھارت کے علاوہ وسط ایشیائی مسلم ریاستیں اور ایرانی بلوچستان کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے ملحقہ ایرانی علاقے بھی شامل ہیں۔ اس طور ہونا تو یہ چاہئے کہ افغانستان، پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی مسلم ریاستیں داعش کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی اپنائیں، گو فوری طور پر اس کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا اب بھی افغان حکومت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا رہے گی یا بین الافغان مذاکرات کے عمل کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے گی؟ ایک بات افغان حکومت کو بھی بطور خاص سمجھنا ہوگی وہ یہ کہ اگر اس نے داعش کیخلاف حکمت عملی وضع کرنے میں تاخیر کی تو ان شبہات کو تقویت ملے گی کہ افغان حکومت خود یہ نہیں چاہتی کہ ملک سے دہشت گردی ختم ہو۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اس سوال کا جواب تو ظاہر ہے کہ افغان حکومت ہی دے سکتی ہے، البتہ یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ سعداللہ تاجک اور اس کے نوجوان افغان دوستوں کا پُرامن افغانستان کے حوالے سے خواب ایک بار پھر چکناچور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ صورتحال ہر گزرنے والے دن کیساتھ مخدوش ہوتی جا رہی ہے، افغان حکومت کو فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے بلکہ بین الافغان مذاکرات کے تمام فریقوں کو متحد ہو کر داعش کے خطرے کا مقابلہ کرنا ہوگا اور اس میں تاخیر مزید مسائل کو تو جنم دے گا ہی اس سے بین الافغان مذاکرات کے سبوتاژ ہونے کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات