p613 235

مشرقیات

ایک دفعہ حضرت مالک بن دینار نے مکان کرائے پر لیا۔ آپ کا ہمسایہ ایک یہودی تھا ۔ آپ کے مکان کی محراب یہودی کے دروازے پر تھی ، جہاں اس نے اپنا بیت الخلا بنا یا اور روز نجاست آپ کے مکان میں ڈال دیتا ۔ کچھ عرصے تک یہی حال رہا ۔ آپ نے اس بات کا کسی سے تذکرہ نہ کیا ۔ ایک دن یہودی آکر کہنے لگا : ”آپ کومیرے بیت الخلا سے کسی قسم کی شکایت تو نہیں ہے ؟ ”
آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک برتن اور ایک جھاڑو رکھا ہوا ہے ۔ کوئی تکلیف نہیں ۔ روز صاف کر لیا کرتا ہوں ۔ یہودی نے سن کر کہا کہ ” یہ پسند ید ہ دین ہے ، دشمن خدا کی تکلیف کو برداشت کرتا ہے اور شکایت نہیں کرتا ”۔ یہ کہہ کر اسلام قبول کر لیا ۔ ایک دفعہ فرماتے ہیں کہ ” میں چالیس سال تک بصرہ میں رہا ، لیکن کھجور نہ کھائی ”۔
جب ارادہ کرتے تو نفس کو یہ کہہ کراطمینان دلاتے کہ ”کھجور نہ کھانے سے میرا پیٹ کم نہیں ہوا اور نہ ہی کھجور کھانے سے اہل بصرہ کا پیٹ بڑاہوا ”۔ چالیس سال کے بعد پھر کھجور کھانے کی خواہش پیدا ہوئی ، لیکن آپ بہ جبر اس خواہش کو دباتے رہے ۔ ایک دن خواب میں دیکھا کہ کسی نے کہا کہ ”کھجور کھائو اور نفس کو قید سے آزاد کرو”۔ جب آپ نے یہ خواب دیکھا تو کہا کہ ”اے نفس ! ایک ہفتہ تک روزہ رکھ ، پھر تجھ کوکھجور ملے گی ”۔
ایک مرتبہ بصرہ میں آگ لگ گئی ۔ آپ اپنا عصا اور جوتیاں لے کر کوٹھے پر چڑھ گئے اور دیکھنے لگے کہ لوگ رنج اور تکلیف میں مبتلا ہیں اور ان کے اضطراب کو دیکھا کہ کوئی اسباب نکال رہا ہے ، کوئی جل رہا ہے ، کوئی بھاگ رہا ہے ۔ آ پ نے منظر دیکھ کر فرمایا ” یہی حال قیامت کے دن ہوگا ”۔ جعفر بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں حضرت مالک بن دینار کے ساتھ مکہ معظمہ میں تھا ۔
جب انہوں نے لبیک لبیک کہا تو بے ہوش ہو کر گر پڑے جب ہوش میں آئے تو میں نے وجہ پوچھی توفرمایا ”مجھے ڈر تھا کہ میرے لبیک کا جواب لا لبیک نہ آئے ”۔
منقول ہے کہ جب آپ سورہ فاتحہ پڑھتے تو زار زار روتے اور فرماتے کہ ”اگر یہ ( ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مددمانگتے ہیں ) قرآن کریم کی آیت نہ ہوتی تو میں ہرگز نہ پڑھتا اور نہ اس کا حکم مانتا”۔
لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ ”ہم منہ سے تو اس کی عبادت اور اس ہی سے مدد چاہتے ہیں ، لیکن حال یہ ہے کہ ہم ذرا ذرا سی باتوں میں دوسرے پر امیداور سہارا رکھتے ہیں ”۔ آپ ساری ساری رات بیدار رہا کرتے تھے’ آپ کی ایک لڑکی تھی۔ اس نے ایک دن آپ سے کہا ” ابا جان! کبھی توآرام فرمایا کریں۔فرمایا” بیٹی! تیرا باپ ڈرتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ دولت دین میری طرف متوجہ ہو اور مجھے سوتا ہوا پائے۔

مزید پڑھیں:  سرکاری عمارات اور سڑکوں کی مرمت کا معاملہ