1 359

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے بعد

پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں اس فیصلے کے بعد کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی امداد کرنے والے ممالک کی گرے یا بلیک لسٹ میں شامل کرنے سے پہلے مہلت دی جانی چاہیے، امریکہ کی قومی سلامتی کونسل میں جنوبی اور وسطی ایشیاء کے لیے سینئر ڈائریکٹر لیزا کرٹس پاکستان آئی ہیں ۔ پیرس میں فنانشل ٹاسک فورس کے چھ روزہ اجلاس میں پاکستان کے حوالے سے فیصلہ امریکہ کی قرار داد پر ہوا تھا۔ پیرس کے اجلاس میں باخبر ذرائع کے مطابق پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے ایکشن پلان تیار کرے اس کی منظوری حاصل کرے اور اس ایکشن پلان پر عمل کرتا ہوا بھی نظر آئے۔ وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے پیرس سے واپسی پر ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستان کو ان اہداف کی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کے حاصل کرنے کا پاکستان سے تقاضا کیا گیا ہے۔ پاکستان کو یہ اہداف فوری طور پر طے کرنے ہوں گے ۔ لیکن ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو 80تنظیموں اور شخصیات کی فہرست دی ہے جن کے خلاف پاکستان سے کارروائی کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز ایک امریکی اہل کار نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے پاکستان میں مقیم عناصر کو افغانستان کی سرحد میں دھکیل دے جہاں امریکی خود ان سے نمٹ لیں گے۔ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے۔ اگرچہ یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو بہتری کی طرف لانے کے لیے غیر اعلانیہ سفارت کاری ہو رہی ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ پاکستان سے کیا مطالبات کرتا ہے اور پاکستان کے ان مطالبات پر پورا اترنے کے امکانات کتنے ہیں اور سکت کتنی ہے۔ فرض کیجئے امریکہ کوئی ایسی فہرست دے دیتا ہے جس میں کئی افراد اور کئی ٹھکانوں کے نام غلط بھی ہو سکتے ہیں تو کیا پاکستان ان کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کرے گا؟ اگر ایسا ہوا تو پاکستان میں اس کے اثرات کیا ہوں گے اور افغانستان میں امریکہ کو طالبان کے خلاف اس کارروائی کے کیا فوائد حاصل ہوں گے۔ ان دونوں سوالوں کے ممکنہ جواب حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ کامیاب آپریشن ضرب عضب کے بعد ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دہشت گردوں کے کتنے عناصر اور ان کے سہولت کار پاکستان میں خاموش ٹھکانوں میں موجود ہیں جو کسی بھی وقت امن وامان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ افغانستان میں 70فیصد یا کم از کم پچاس فیصد علاقے پر طالبان کی عملداری ہے۔ ان کے خلاف فوجی کارروائی ان کی حمایت میں اضافے کا باعث بنے گی۔ لہٰذا اس خطرناک راستے پر چلنا خود امریکہ کے لیے اور اس کے مقاصد کے لیے مناسب نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ معاشی بدحالی اور عدم تحفظ محسوس کرنے والے امریکی ووٹروں کو جلد از جلد کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ایک طرف وہ پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کو اقتصادی طور پر ہراساں کر کے اس مطالبہ کو پورا کرنے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔میونخ میں فوجی سربراہوں کی کانفرنس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نہایت مدلل مؤقف اختیار کیا۔یہی مؤقف وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی امریکیوں سے گفتگو میں اختیار کیا ۔ آرمی چیف نے کہا کہ افغانستان میں ہم نے گزشتہ چالیس سال میں جو بویا وہ کاٹ رہے ہیں۔امریکہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکا نوں کا الزام لگاتا ہے لیکن پاکستان میں مقیم افغانوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے میں تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نہ پاک افغان سرحد پر باڑھ بندی میں تعاون پر تیار ہے جس کے ذریعے ممکنہ جنگجوؤں کی ایک دوسرے ملک میں پناہ لینے کی سہولت ختم ہو جائے۔ تو کیا امریکہ خطے میں امن و استحکام چاہتا ہے ؟ فرض کیجئے آج پاکستان میںدینی مدارس بند کر دیے جائیں تو ان مدارس کے 25لاکھ نادار طلبہ کہاں جائیں گے؟ ان کی کفالت کون کرے اور وہ کس طرف دیکھیں گے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ ان کی تدریس میں عصری تعلیم کی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ یہ طلبہ فارغ التحصیل ہو کر ملازمتوں کی مارکیٹ میں اپنا مقام تلاش کر سکیں۔ کیا امریکہ اس میں تعاون کے لیے تیار ہے۔ کیاآپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں جنگجوؤں کے فرار ہونے کے بعد اوردوسرے آپریشنوں کے بعد جو لوگ جنگجوؤں کے حامی اور سہولت کار ہونے کی بنا پر زیرِ حراست ہیں ان کو تہہ تیغ کر دینا چاہیے؟ اس صورت میں ان کے ورثاء میں کیا بیانیہ تشکیل پائے گا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ان کی اصلاح اور تربیت کے لیے وسائل مہیا کیے جائیں۔امریکہ کی قومی سلامتی کی ڈائریکٹر پاکستان سے کیا مطالبات لے کر آئی ہیں وہ پاکستان کے لیے قابل قبول ہیں یا نہیں۔ اس کا نتیجہ پاکستان کے عوام کو برداشت کرنا ہوگا۔ اس لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں جو کچھ اور اس کے نتیجے میں جو کچھ ہو نے جارہا ہے اسے عوام کے سامنے آناچاہیے۔ پارلیمنٹ میں آنا چاہیے، کم از کم کسی ان کیمرہ اجلاس میں اس پر بات ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے اپوزیشن کا کردار بہت مایوس کن ہے۔ اسے حکومت سے معلوم کرنا چاہیے کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں؟ اگر پاکستان دنیا میں تنہاہونے والا ہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ پاکستان کی سفارت کاری کیوں دنیا پر یہ واضح کرنے میںناکام ہے کہ دہشت گردی امریکہ اور مغربی دنیا کی پالیسیوں اور اقداما ت سے پیدا ہوئی۔ انہی وجوہ کی بنا پر اس نے فروغ حاصل کیا جس کا خمیازہ پاکستان ‘ افغانستان اور خطے کے دوسرے ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے، اسے پر امن طور پر سمیٹنا بھی مغرب کی ذمہ داری ہے۔ اپوزیشن کو یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ حکومت پاکستان منی لانڈرنگ کے انسداد کے لیے قانون اور ضابطوںمیںکیاتبدیلی کرنے والی ہے۔ یہ سب کچھ پارلیمنٹ میں زیرِ بحث آنا چاہیے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں