p613 236

مشرقیات

ابو معلق نامی ایک صحابی تجارت کی غرض سے اکثر سفر پر رہتے تھے۔ ایک بار مال تجارت لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک ڈاکو نے ان کو گھیر لیا اور کہا: تمہارا مال اور جان دونوں لینا چاہتا ہوں’ فرمانے لگے’ میری جان لے کر کیا کروگے’ مال حاضر ہے’ مجھے چھوڑ دو لیکن وہ نہیں مانا اور کہا: مجھے تمہیں قتل بھی کرنا ہے۔ انہوں نے فرمایا: تو مجھے چار رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دو۔ ڈاکو نے مہلت دے دی’ صحابی نے چار رکعت نماز ادا کی اور آخری سجدے میں یہ دعا کی۔”اے محبت کرنے والے’ اے محبت کرنے والے’ اے بزرگ عرش والے’ اپنے ارادے کے مطابق عمل کرنے والے! میں تجھ سے تیری اس عزت کا سوال کرتا ہوں جس کا ارادہ نہیں کیا جاسکتا اور اس ملک و بادشاہت کا وسیلہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ جس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اور تیرے اس نور کے ذریعے سے سوال کرتا ہوں جس نے تیرے عرش کے ارکان کو روشن کیا ہے کہ تو مجھ کو اس ڈاکو کی برائی سے بچالے’ اے مدد کرنے والے! میری مدد فرما! اے مدد کرنے والے میری مدد فرما۔”اتنے میں ہاتھ میں نیزہ لئے ایک شہسوار نمودار ہوا’ اس نے ڈاکو کو قتل کرکے سربسجود صحابی سے کہا کہ سر اٹھا’ صحابی نے سر اٹھا کر دیکھا کہ ڈاکو مرچکا ہے تو پوچھا: آپ کون؟ وہ کہنے لگا میں چوتھے آسمان کا فرشتہ ہوں’ تم نے پہلی مرتبہ دعا کی تو میں نے آسمان کے دروازوں کے کھلنے کی آواز سنی’ دوسری بار دعا کی تو میں نے اہل سما میں ہلچل کی آواز سنی’ تیسری مرتبہ دعا کی تو مجھ سے کہا گیا کہ یہ ایک مصیبت زدہ کی فریاد ہے’ میں نے اللہ تعالیٰ سے ظالم کے قتل کرنے کی درخواست کی جو منظور ہوئی چنانچہ میں نے آکر اس کو قتل کردیا۔ (الجواب الکافی ص:12)
٭حضرت سیدنا وہب بن منبہ سے مروی ہے کہ کسی جابر بادشاہ نے ایک محل بنوایا اور اسے خوب پختہ کیا’ ایک مسکین بڑھیا نے پناہ لینے کے لئے محل کے قریب ایک جھونپڑی بنالی’ ایک دن اس ظالم نے محل کے ارد گرد چکر لگایا تو بڑھیا کی جھونپڑی کو دیکھ کر اس جھونپڑی کے گرانے کا حکم دیا اور جھونپڑی گرادی گئی۔ جب بڑھیا آئی تو اسے گراہوا پاکر پوچھا: ”اسے کس نے گرایا ہے؟” اسے بتایا گیا کہ ”بادشاہ نے”۔بڑھیا نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض کی:”اے پروردگار میں تو موجود نہ تھی’ مگر تو تو موجود تھا؟” راوی بتاتے ہیں: ”پس اللہ عزوجل نے حضرت جبرائیل کو حکم دیا کہ محل کو اس میں رہنے والوں پر الٹ دیں۔”چنانچہ حضرت جبرئیل نے اسے الٹ دیا۔بعض تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ محل کی باقی ماندہ بعض دیواروں پر یہ اشعار لکھے ہوئے پائے گئے تھے۔ترجمہ: کیا تم بددعائوں کا مذاق اڑاتے ہو اور اسے حقیر جانتے ہو تمہیں پتہ نہیں ہے کہ ان بددعائوں سے کتنے بڑے بڑے کام ہو جاتے ہیں۔ رات کے تیسرے (آخر شب کی بد دعا) کبھی خطا نہیں ہوتے’ لیکن اس کی ایک انتہاء ہوتی ہے اور انتہا ایک دن ختم ہوہی جاتی ہے۔ یہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو’ یہ سب اللہ کی مرضی سے ہوا۔ (بحوالہ دعوة المظلوم)

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن