1 360

ساجھے دار طبقاتی جمہوریت

ہمارے وائسرائے نما دانشور اور کالم نگار ہمیں لگ بھگ40برسوں سے بتا سمجھا رہے ہیں کہ سیاستدانوںنے اس ملک کا بیڑا غرق کیا، وہ مخلص ہوتے تو پاکستان، امریکہ، برطانیہ، سویڈن وغیرہ سے سو میل تو کم ازکم آگے ہوتا۔ اس نایاب مخلوق میں ہمارے چند دوست بھی شامل ہیں، ان سے جب کبھی ملاقات ہو تو فقیرراحموںکا پہلا سوال یہ ہوتا ہے، کیا ملک کا بیڑا غرق صرف سیاستدانوں نے ہی کیا باقی دودھ کے دھلے ہیں؟ وہ ناراض ہوتے ہیں، بگڑتے ہیں، پھر کہتے ہیں تیری وجہ سے ہمارے شاہ جی نے ترقی نہیں کی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، ترقی کیا ہوتی ہے، یہی کہ آپ اپنے شعبہ میںکہاں تک پرواز کر سکتے ہیں؟ سال1973ء میں کراچی کے ایک ایونگر اخبار میں بچوں کا صفحہ بنانے سے صحافت کے کوچہ میں قدم رکھا، لگ بھگ 47سال ہوتے ہیں ”چکی کی مشقت” جاری ہے۔ اس دوران مختلف جرائد اور اُردو وانگریزی کے اخبارات کی ایڈیٹری کی سعادت ملی، اداریہ نویس اور کالم نگار کے طور پر شناخت، پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر جو علمی وادبی خدمت کی وہ بھی سرمایہ ہے۔ لاہور، پشاور، ملتان اور اب پھر لاہور پریس کلب کا رکن ہونے کے باوجود الحمد اللہ کوئی پلاٹ لیا نہ مراعات، خالص تنخواہ پر زندگی بسر ہوتی ہے، اسی میں خوش ہوں، یہی کامیابی ہے۔ ہاں فراہم کردہ کہانیوں سے سکینڈل اور کالم نہیں جوڑے کیونکہ قلم مزدور کا خیال تھا کہ اس طرح آزاد روی کے ”پر” کٹ جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی حمایت جمہوریت کے لئے ہے کیونکہ اس امر سے بخوبی واقف ہوں کہ عوامی جمہوریت کا راستہ طبقاتی جمہوریت کے کوچے سے تو نکل سکتا ہے، شخصی حکومت کے اندھے کنویں سے نہیں۔ہمارا مسئلہ اور ضرورت عوامی جمہوریت ہے، یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ طبقاتی جمہوریت ہمارے گلے پڑی اب بھی وہی ہے۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود ہمیں بطور خاص یہ بات سمجھنی ہوگی کہ صرف سیاستدانوں کی کرپشن کہانیاں ایک خاص مقصد کیلئے پھیلائی جاتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کرپشن نہیں ہوئی لیکن کرپشن کہانیوں کی آڑ میں جمہوری عمل کو متنازعہ بنوانے والے اصل میں اپنی اپنی کرپشن چھپاتے ہیں اور یہ وائسرائے ٹائپ مخلوق اُن قوتوں کی میڈیا منیجر ہے۔ یہ میڈیا منیجری نہیں ہوئی ہم سے وجہ ان سطور میں کئی بار عرض کی، تکرار کی ضرورت نہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ خواہشوں کا انبار نہیں پالا اس لئے سکھی رہے، کبھی آڑا وقت دامن گیر ہوا تو دوست آگے بڑھ کر مدد کو پہنچے، ایسے ہر موقع پر ہمیں سید ابوالحسن علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ الکریم یاد آئے فرمایا ”غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں”۔ مرشد سیدی بلھے شاہ کہتے ہیں ”ناکامی یہ ہے کہ زندگی سے اعتماد ختم ہو جائے” معاف کیجئے گا وائسرائے صاحبان سے بات شروع ہوئی تھی کچھ اِدھر اُدھر نکل گئی۔ سیاسی جماعتوں کی ایک ہی غلطی ہے، وہ یہ کہ انہوں نے سیاسی کارکن بنانے کے تنظیمی ادارے فعال نہیں کئے بلکہ ان کی جگہ وفادار لشکروں کو اہمیت دی اور پارٹی عہدے ٹھیکیداروں کے حوالے کر دئیے۔ ظاہر ہے جب آپ نظریاتی کارکن تیار کرنے کی بجائے جلسوں اور جلوسوں پر پیسے خرچ کرنے والے لوگ چاہیں اور پیسہ خرچ کرنے والا سیاسی کارکن کی طرح خوار نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے سیاسی جماعتوں کے اندر تنظیمی ڈھانچے جمہوری عمل سے نہیں عشروں سے نامزدگیوں پر چل بن رہے ہیں۔ کبھی انتخابات ہوں بھی تو ایسے ہوتے ہیں جیسے چند دن قبل پی پی پی اور پھر پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے ہوئے، تین سے پانچ منٹوں میں مرکزی قیادت کے انتخابات مکمل اور پریس ریلیز جاری۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ طلباء یونینوں کی بحالی کے معاملے میں سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اپنے سوا سب کو چور غدار مشہور کروانے والے ہی اصل میں طلباء یونینوں اور مزدور یونینوں کی بحالی اور فعالیت سے خوفزدہ ہیں کیونکہ ان دونوں شعبوں سے ہی سیاسی عمل کو نیا خون ملتا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ نظریاتی سیاست کے تقاضے اور مورچے یا نرسریاں ہیں۔ بہت دور نہ جائیں، 1970ء کی دہائی تک دائیں یا بائیں بازو کے تربیت یافتہ سیاسی کارکن ہوتے تھے، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نے جہاں اور بہت ساری بربادیاں بوئیں، ایک یہ بھی کہ انہوں نے ہی غیرجماعتی انتخابات کے ذریعے کرپشن اور اقرباء پروری کا دروازہ کھولا اور پھر چل سوچل! اسے بدقسمتی ہی کہیں کہ بعد کے ادوار میں سیاسی جماعتوں نے پچھلی دہائیوں کا سا سیاسی ماحول بنانے، بحال کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں بلکہ انہوں نے بھی انہی رویوں کو آگے بڑھایا، یہی ظلم تھا۔ سیاسی جماعتیں چاہیں تو اصلاح احوال کیلئے اب بھی حکمت عملی وضع کر سکتی ہیں، جماعتوں کے اندر جمہوری عمل کو پروان چڑھائیں، طلباء ومزدور یونینوں کو فعال بنوائیں اور کوشش کریں کہ سیاسی جماعتوں کی باگ ڈور سیاسی کارکنوں کے پاس رہے، ٹھیکیداروں سے نجات ملے، تب ایک حقیقی عوامی جمہوریت کیلئے اخلاص سے جدوجہد ممکن ہے، ورنہ ساجھے دار طبقاتی جمہوریت ہمارے گلوں کا طوق رہے گی۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے