logo 60

امریکا کا نیا صدر اور پاک امریکہ تعلقات

امریکی قصرابیض میں نئے مکیں کی آمد دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سربراہ حکومت کے انتخاب سے قدرے مختلف اسی لئے ہے کہ امریکی پالیسیوں کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں امریکی صدر کی پالیسیوں سے مختلف ممالک سے تعلقات سے لیکر جنگ وجدل میں گھرے ممالک میں بھی حالات اور صورتحال میںکسی حد تک تبدیلی آتی ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد پہلے حکم میں کچھ مسلم اور افریقی ممالک پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عائد کردہ سفری پابندیاں ختم کرکے اہم اور مثبت پیغام دیا ہے۔نومنتخب امریکی صدرنے پناہ گزین مخالف پالیسیز کو بھی پلٹ دیا۔انہوں نے نسلی مساوات کو فروغ دینے کے ساتھ پسماندہ طبقات کی حمایت کا بھی عندیہ دیا ہے۔ان کی پریس سیکریٹری جین ساکی کا کہنا تھا کہ پہلے دن کا منصوبہ جو بائیڈن کے انتظامی اقدامات کا صرف آغاز ہے جو وہ دفتر میں داخل ہوتے ساتھ اٹھائیں گے۔پاکستانی نقطہ نظر سے نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی ٹیم میںبھارتی نژادامریکیوں کاغلبہ ہمارے لئے کوئی دل خوش کن اقدام نہیں تاہم جوبائیڈن نے اپنی ٹیم میں کچھ پاکستانی نژادماہرین کوبھی شامل کیا ہے لیکن ان کی تعداد بھارتی نژاد عہدیداروں کے ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔جوبائیڈن کی نئی ٹیم میںکشمیرسے تعلق رکھنے والی عائشہ شاہ کوپارٹنرشپ منیجربرائے ڈیجیٹل سٹریٹجی کی ذمہ داری دی گئی ہے۔نومنتخب امریکی صدر کی ٹیم میں بھارتی نژاد امریکیوں کا غلبہ اور نائب صدر کملا ہارس کا بھارتی نژاد پس منظر ایسے معاملات ہیں جن کے امریکی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کا امکان تو بہر حال ہے لیکن من حیث المجموع امریکی پالیسیاں طے کرنے میں شخصیات کی بہ نسبت حالات اہم ہوتے ہیں دیکھا جائے تو صدر باراک اوباما کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا، انہیں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی نژاد امریکیوں کی حمایت بھی حاصل تھی مگر ان کے دورحکومت میں امریکہ اورپاکستان کے تعلقات سرد رہے ۔ اس طویل سرد سیاسی مدت کے بعد ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا آغاز ہوا۔ چار سال کی صدارتی مدت کے ابتدائی دوسال کے دوران پاکستان اور امریکہ کے تعلقات دبائو کا شکار رہے جس میں صدر ٹرمپ نے پاکستان امریکی تعلقات کو جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے پاکستان کی1.3بلین ڈالرز کی سکیورٹی امدادتک بند کر دی۔مگر یہ صورت حال گزشتہ دو سالوں میں بہت مختلف نظر آئی۔ صدر ٹرمپ امریکی افواج کا افغانستان سے پرامن انخلا چاہتے تھے جس کے لیے انہیں پاکستان کی مدد کی ضرورت تھی۔ اس سلسلے میں پاکستان نے ایک اہم کردار ادا کیا جس سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان بہتر تعلقات کا دوبارہ آغاز ہوا۔ اب جبکہ ری پبلکن حکومت ختم اور ڈیموکریٹک حکومت اپنی چار سالہ مدت اقتدار شروع کرچکی ہے، یہ سوال بہت اہم ہے کہ پاکستان، امریکہ تعلقات کی صورتحال کیا رہے گی؟یہ امر اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔امریکہ کیلئے بھی طوعاًوکرھاً ہی سہی پاکستان کو نظر انداز کرنے کی گنجائش نہیں خاص طور پر افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے پاکستان کی مددوتعاون امریکہ کی بنیادی ضرورت ہے۔پاک امریکہ تعلقات اتنے ہی پرانے ہیں جتنا کہ خود پاکستان۔ اس امر کو مد نظر رکھا جانا چاہیئے کہ جوبائیڈن کی تجربہ کار ٹیم پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات اور خطے میں اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے اور پاکستان، امریکہ کیساتھ دوطرفہ علاقائی تعلقات پر مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ مقصد ہے جس میں پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے چونکہ امریکہ اور پاکستان دونوں افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں اس لیے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات مستحکم رہیں گے۔ کشمیر کا مسئلہ اسلام آباد کی اولین ترجیح ہو گی اور وزیر اعظم عمران خان یقینا اس کا پرامن حل چاہیں گے مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ حل کن شرائط و ضوابط پر منحصر ہوگا؟ بائیڈن حکومت سے پاکستان کی توقعات کشمیر کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہوں گی۔ صدر ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے میں دو مرتبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی مگر نئی دہلی کا ردعمل مثبت نہیں تھا۔امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمالہ ہیرس کی حکومت سے پاکستانیوں کی کئی توقعات وابستہ ہیں۔ اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ جن مضبوط سفارتی تعلقات کا آغاز صدر ٹرمپ کے آخری دو سالوں میں دیکھا گیا، کیا بائیڈن انتظامیہ اسی تسلسل کو برقرار رکھتی ہے یا اس میں کوئی تبدیلی آئے گی۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج