logo 60

مشرقیات

سلطان محمود 870ھ میں احمد نگر (دکن) کی طرف شکارکو گیا۔ اثنائے راہ میں اس کے ایک سردار بہاء الملک نے ایک شخص کو جان سے مار ڈالا ۔ بادشاہ کو خبر ہوئی اس نے ملک حاجی اور عضد الملک کو جو مہمات بادشاہی کے ناظم اعلیٰ تھے’ اس کی گرفتاری پر مامور کیا۔ یہ دونوں امیر دل سے اس کے طرف دار تھے۔ تھوڑی دور جا کر یہ چالبازی کی کہ بہاء الملک کے نوکروں کو بہت سا روپیہ دے کر ان سے یہ اقرار لے لیا کہ اگر پرسش ہو تو وہ خون کا اقبال کرلیں اور یہ کہا کہ بادشاہ رحیم ہے بخش دے گا۔ وہ دونوں اجل گرفتہ مال کے طبع اور اپنے آقا کی خیر خواہی کے لئے آمادہ ہوگئے۔ بادشاہ کے سامنے دونوں نے اقرار کرلیا۔ بادشاہ نے علماء سے فتویٰ لیا اور ان مزدور گنہگاروں کو قتل کرایا۔ تھوڑے عرصہ بعد بادشاہ کو معلوم ہوا کہ ان دونوں سرداروں نے اپنے دوست کو بچانے کے لئے دونوں بے گناہوں کا مجھ سے خون کرایا ہے۔ ہر چند کہ ان دونوں سے بہتر کوئی امیر وزیر اس وقت دربار میں نہ تھا مگر بادشاہ نے اس خیال سے کہ میرا نام ظالموں اور بے انصافوں کی فہرست میں نہ لکھا جائے۔ ان دونوں کو قتل کرا دیا اور عبرت خلائق کے لئے ان کی کھالوں میں گھاس بھروا کر احمد آباد کے چوپڑ کے بازار میں ان کو لٹکوادیا۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی کام کے کرنے میں عجلت نہ برتی جائے خاص کر انصاف کی فراہمی میں شواہد کو مکمل طور پر سامنے رکھا جائے تاکہ کسی سے ناانصافی نہ ہو یہی اصول اگر ہم خود بھی اپنالیں تو کسی سے کوئی بے انصافی نہیں ہوگی اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔٭
سلطان محمد تغلق کا ابتدائی زمانہ تھا۔ ایک دن اس نے حضرت شیخ نصیر الدین دہلوی کو دعوت پر بلوایا’ حضرت جانتے تھے کہ محمد تغلق نہایت تند مزاج اور غصہ ور اور متکبر بادشاہ ہے۔ اس خیال سے کہ انکار سے فتنہ کا اندیشہ ہے دعوت میں آگئے۔ سلطان نے دعوت کے بعد کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کیجئے۔ حضرت نے فرمایا یہ درندوں کا سا غصہ جو تمہاری طبیعت اور عادت میں داخل ہے اس کو چھوڑ دو۔ سلطان نے ایک تھیلی نقد کی اور دو قطعہ صوف سبز اور سیاہ شیخ کے آگے رکھے تاکہ وہ خود اپنے ہاتھ سے اٹھائیں۔ نظام الدین نے جو سلطان کے مصاحبوں اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مریدوں میں سے تھے حضرت شیخ کے آگے سے کپڑا اور زرنقد اٹھا کر خدام کے حوالے کردیا اور حضرت کی پاپوش سیدھی کرکے ان کے سامنے رکھ دی۔ سلطان کو خواجہ کی یہ حرکت ناگوار گزری اور تلوار کھینچ کر کہا تیری کیا مجال اور طاقت تھی کہ تو نے یہ نازیبا حرکت کی؟ خواجہ نے کہا اگر میں اس صوف اور بدرہ کو نہ اٹھاتا تو حضرت انکار فرمادیتے اور حضور کی دل شکنی ہوتی اور حضرت کی جوتیوں کا سیدھا کرنا میرا عین فرض ہے۔ اس جرم پر اگر بادشاہ مجھے قتل بھی کردیں گے تو میں خوش میرا خدا خوش کیونکہ بادشاہ کی ننگ صحبت سے مجھے قیامت تک کے لئے نجات مل جائے گی۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی