2 397

موسمیاتی تبدیلیاں اور سر پر کھڑا بحران

موسمیاتی تبدیلیوںکے بارے اگر ہنگامی بنیادوں پر کچھ نہ کیا گیا تو یہ دنیا کا نظام در ہم برہم کرسکتا ہے۔ یہ ہمیں پہلے سے درپیش خطرات کو مزید گمبھیر کرنے کیساتھ ساتھ عالمی غربت، عدم تحفظ اور انسانی حقوق کی پامالی کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ یہ تمام تر خدشات سال 2015 میں پیرس اگریمنٹ کی بنیاد بنے۔ اس معاہدے کے تحت عالمی برادری سے یہ عہد لیا گیا کہ وہ گلوبل وارمنگ میں دنیا کا اوسط درجہ حرارت دو ڈگری سیلسی ایس کم رکھنے کیلئے کوشش کریں گے ۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کے تحت تمام ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے بنرد آزما ہونے کیلئے ایک جامع لائحہ عمل حاصل ہو چکا ہے۔ مزید بر آں یہ اس فرق کو بھی ختم کرنے کا موجب بنا ہے جو اس مسئلے کے حوالے سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بیچ پایا جاتا تھا اور جس کی باعث اکثر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والے اجلاسوں میں تلخی، کشیدگی اور گرما گرمی ہو جاتی تھی۔ یہ معاہدہ باضابطہ طور پر تمام فریقین کو ساتھ ملا کر ایک ایسا جامع اور لائحہ عمل ترتیب دیتا ہے کہ جس کے سبب باہمی اشتراک اور تعاون سے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر سطح پر اس گھمبیر ہوتے بحران سے نمٹا جا سکے۔ اس ضمن میں ترقی یافتہ ممالک نے اپنے سے پیچھے رہ جانے والے ممالک کو اس بحران سے لڑنے کیلئے مکمل مالی امداد کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ تمام دستخطیوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ وہ ہر پانچ سال بعد اپنی قومی سطح پر خدمات کا جائزہ پیش کرنے او ر آئندہ کیلئے کیے گئے ارادوں سے آگاہ کیا کریں گے۔ یہ عالمی سطح کا معاہدہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں نافذلعمل ہوا ہے ۔ ایسی سبق رفتاری کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی ماحول کیلئے نقصان دہ مادوں کے اخراج اور جدید متبادل توانائی کے ذرائع کو استعمال کرنے کیلئے ترقی پذیر ممالک کی مالی اور تکینیکی امداد کیلئے ہنگامی بنیادوں کو کاوشیں کی جار ہی ہیں۔ کئی ممالک نے اپنی ملکی سطح پر پالیسیاں اور لائحہ عمل تشکیل دے کر اورکچھ ممالک نے ساتھی ملکوں کے اشتراک کیساتھ مل کر اقوام متحدہ کی قیادت میں اس بحران سے اجتماعی طور پر نمٹنے کی راہ اپنائی ہے۔ ن سب اقدامات کے باوجوداصل صورتحال خاصی تشویش ناک ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں درجہ حرارت تاریخ میں سب سے زیادہ رہے ہیں۔گزشتہ سال 2020بھی تاریخ کے گرم ترین سالوں میں سے ایک تھا۔ ایک شدید موسمی بحران کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے اور اس کا سب زیادہ شکارغریب ممالک کے لوگ ہی ہوں گے۔ مالی امداد کے تمام تر دعووں کو ابھی حقیقت کا روپ دھارنا باقی ہے اور یہ بھی دیکھنا اہم ہے کہ اس مالی امداد کا ہجم مسئلے کی نوعیت کے لحاظ سے کافی ہو۔ اس مسئلے کے سامنے زیادہ تر غریب اقوام مالی ابتری اور پالیسی ناکامیوں کی سبب بلکل بے بس نظر آتی ہیں۔ اور فلوقت کی صورتحال کے مطابق موسمیاتی ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے کیے جانے والے اقدامات نا کافی نظر آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی جانب سے حال ہی میں دو رپورٹیں جاری کی گئی ہیں جو اس بحران کے بارے اندرونی حالات اور اس سے نکلنے کیلئے ممکنہ راستوں کے بارے آگاہ کرتی ہیں۔ پہلی رپورٹ میں تو جیواشم ایندھن کی بڑھتی پیداوار کے بارے تنبیہ کرتے ہوئے حکومتوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے وہ زیر زمین ایندھن کی پیداوار کو کم کر کے قدرتی اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع کو اپنائیں او رموسمی تباہی سے بچنے کیلئے جیواشم ایندھن کی پیداوار میں سالانہ چھ فیصد تک کی کمی لائیں۔ جی 20حکومتوں نے کووڈ وبا کے خاتمے کیلئے کیے جانے والے اقدامات کے تحت ان کمپنیوں اور شعبوں کو 230ارب ڈالر کی امداد کی یقین دہانی کرائی ہے جو فاسل فیول کی پیداوار اور کھپت سے وابستہ ہیں یہ رقم اس 150ارب ڈالرکی رقم سے کئی زیادہ ہے جو ان ممالک نے کلین انرجی کیلئے مختص کی ہے۔ رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ گرین انرجی سے متعلق سرمایہ کاری کیلئے زیادہ سے زیادہ امداد کی فراہمی یقینی بنائے جائے۔ دوسری رپورٹ امیشنز گیپ کے حوالے سے ہے۔ یعنی فضامیں مضر صحت گیسوں کا اخراج بھی پچھلے تین سالوں سے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ کووڈ وبا کے دوران اس میں کچھ کمی تو آئی ہے مگر یہ اس اخراج میں2030 تک مستقل کمی لانے کیلئے ناکافی ہے۔ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہو سکے گا جب ممالک معاشی استحکام حاصل کرنے کیلئے وہ اطوار اپنائیں گے جس میں کاربنائیزیشن میں کمی کے مقصد کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائیگا۔ پیرس معاہدے کے بعد سے اقوام متحدہ بھی دنیا بھر کی حکومتوں کو اس مسئلے کے مطابق نئے منصوبے بنانے اور ان پرعمل درامد کرنے پر زور دے رہا ہے۔ سیکرٹری جنرل انتونیو گٹریز نے تین اقدام پر مشتمل ایک جامع حل تجویز کیا ہے جو سب سے پہلے اگلے تین برس میں کاربن کے اخراج کو نیوٹرل پوزیشن تک لے کر آنا، پیرس اگریمنٹ کیلئے معاشی امداد اکھٹی کرنا اور موسمی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک اور لوگوں کے تحفظ اور بہتری کیلئے ٹھوس اقدامات لینے پرمشتمل ہے۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں