3 300

مسیحا ہو تو ایسا ہو

میں ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کروں گا، یہ ایسے الفاظ ہیں کہ جو عوام کیلئے غیرمانوس نہیں ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ یہ الفاظ سن سن کر کان پک چکے ہیں مگر دہرانے والے ہیں کہ مسلسل اس کی ادائی سے پرہیز نہیں کر رہے۔ اصل میں ہوتا کیا ہے کہ یہ الفاظ ادا کرنے والا اگر اتفاق سے ڈاکٹر بن بھی جاتا ہے تو اس کا طرزعمل وہ نہیں ہوا کرتا جیسا کہ وہ عوام سے وعدہ کر چکا ہوتا ہے۔ وہ بھی عام مسیحا ہی پایا جاتا ہے مگر دنیا میں اچھائی کی فضا معدوم نہیں ہوئی ہے، آج بھی ایسے مسیحا دنیا میں موجود ہیں جو میٹرک کا نتیجہ نکلنے کے موقع پر گلکاری الفاظ نہیں بولا کرتے، مگر اپنے قول وفعل سے ثابت کرتے ہیں کہ وہ واقعی اللہ کے بھیجے ہوئے مسیحا ہیں بزرگ آج بھی یہ یقین رکھے ہوئے ہیں کہ دنیا ایسے ہی مسیحاؤں کی بدولت قائم ہے، ورنہ کب کی اُلٹ چکی ہوتی، پہلے یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ایّام مرور میں میٹرک جماعت کا نتیجہ بڑی اہمیت سے منظرعام ہوا کرتا تھا اس کی بڑی دھوم ہوا کرتی تھی، اخبارات میٹرک کے نتائج پر خصوصی اشاعت کا اہتمام بھی کیا کرتے تھے اور بورڈ میں اول و دوم پوزیشن لینے والوں کا انٹرویو بھی کیا کرتے تھے، محولہ بالا الفاظ وہ طالب ہی بول دیا کرتے تھے جو اول و دوم پوزیشن کے حامل ہو جاتے تھے، اس کے بعد کیا ہوتا، صرف رہے نام اللہ کا، آج کے دور میں میٹرک کی وہ قدر نہیں رہی ہے جو اس وقت تھی، چنانچہ اب میٹرک کا نتیجہ اس طرح منظرعام نہیں ہوتا جیسا کہ ماضی میں اس کی دھوم ہوا کرتی تھی کہ اخبارات کے دفاتر کے سامنے یا ان مقامات پر نتیجہ سے آگاہی کیلئے عوام الناس کی قطار درقطار لگی رہتی تھی اور اخبارات کے عملہ کو اس جم غفیر کو سنبھالنا بھی اور اپنی ڈیوٹی ادا کرنا بھی دشوار ہو جایا کرتا تھا، تاہم آج بھی اخبارات یہ فریضہ محدود انداز میں نبھا رہے ہیں پہلے پور ے صوبے کا ایک ہی ایسے امتحانات کا بورڈ ہوا کرتا تھا مگر اب کئی ہوگئے ہیں شاید پہلے سے بہت زیادہ تعلیم عام ہو گئی ہے، یہ مسلمہ اصول بھی کہ جو چیز بہت عام ہو جاتی ہے وہ اپنی قدر کھو دیتی ہے، چنانچہ پہلے تو بیٹا میٹرک کر کے اپنے غریب ماں باپ کا سہارا بن جایا کرتا تھا اب تو تعلیم کی حیثیت بازاری سی ہو چلی ہے کہ اب میٹر ک پاس تو پڑھے لکھے تسلیم ہی نہیں کیے جاتے بلکہ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ بھی خوار پھرتے ہیں میر کی طرح، یہا ں میر تقی میر کا حوالہ استعارہ کے طور پر استعمال ہوا ہے کیونکہ میر تقی میر موجودہ دور کے نوجوانوں کے عوامل کی طرح خوار نہیں تھے، یہا ں اس امر کا بھی ذکر کر دیا جائے کہ پاکستان میں بعض سیاسی اور غیر سیاسی عاملین کی کھینچاتانی کی وجہ سے وہ نہ ہو پایا جو اس ملک کے مفاد یا استحکام کیلئے لازمی اب بھی ہے، ہر ایک اقتدار کے چسکے لیتا رہا ہے اور اقتدار سے دھول دھپا کرتا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اصل دشمنوں نے خود کی جڑیں اس حد تک مضبوط کر لیں کہ پاکستان ان سے کئی سو سال پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کی ادنیٰ سی مثال یہ ہے کہ بھارت نے اپنے یہاں تعلیم کو ایسی مضبوطی دی کہ آج ترقی یافتہ ممالک کے اہم عہدوں پر ایک بھاری تعداد بھارتی باشندوں کی فائز ہو چکی ہے۔ پاکستان میں بھی ذہانت کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن یہ ذہین فطین حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی بناء پر پیچھے رہ جاتے ہیں اور جو کچھ کر پاتے ہیں وہ اس کیلئے اپنی اہلیت کو بروئے کار لاتے ہیں۔ بھارت نے پورے ایک منصوبے سے ایسے تعلیم یافتہ افراد تیار کیے جو ترقی یافتہ ممالک میں جا کر اہم کلیدی عہدوں پر فائز ہوئے، اگر جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر پاکستانی محنت مزدوری کیلئے بیرون ملک جاتے ہیں اور وہاں چھوٹا موٹا کام تلاش کرتے ہیں جس میں زیادہ تر صفائی کرنا، پیٹرول پمپ پر کام کرنا یا پھر ٹیکسی چلانا ہے جبکہ بھارتی زیادہ تر اہم عہدوں پر فائز ہیں اسی طرح سکھ برادری کاروبار کو ہاتھ میں لیے ہوئے ہے، بھارت نے یہ سب کچھ ایک بڑی منصوبہ بندی سے کیا ہے۔ اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جوبائیڈن نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مشیروں، ڈائریکٹرز اور ایسے ہی اہم عہدوں پر جو تقرریاں کی ہیں ان میں سب سے بڑی تعداد بھارتی باشندوں اور خاص طور پر ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کی ہے چنانچہ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکا کی بھارت کے بارے میں پالیسی اور ہے اور پاکستان سے دوستی کا مدعا اور ہے، بہرحال بات ہو رہی تھی مسیحا کی اور پھسل گئی قومی مفادات کی طرف، خیر یہ مدعا بھی ناقابل نظرانداز ہے۔ انسانیت کی حقیقی خدمت کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے، پاکستان میں ایسے ایسے گدری کے لعل ہیں کہ ان کا ذکر ان کی زندگی میں نہ کیا جائے تو یہ انتہائی حق تلفی کا سبب ہوگا۔ طب کے شعبے کو لے لیں کئی مسیحا خدمت کے جذبے سے سرشار نظر آتے ہیں، ان میں ایک مرحوم ڈاکٹر الف خان ہیں جو کمائی کی غرض سے پریکٹس نہیں کرتے تھے انتہائی محدود تعداد میں اپنے کلینک میں مریضوں کا معائنہ کرتے تھے، اسی طرح ان عظیم مسیحاؤں میں ایک نام پروفیسر آف نیورالو جسٹ ڈاکٹر سہیل خان کا بھی نمایاں تر ہے۔ ان کے ہر مریض کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر سہیل کے پاس مریض آدھا تندرست ان کے اخلاق سے ہی ہو جاتا ہے،یہ ہوتا ہے اصل مسیحا باقی دعوے سب جھوٹے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات