5 296

اپنی تہذیب پر شرمندگی کیوں؟

وزیراعظم عمران خان کے بعض اقدامات ایسے ہیں کہ اگر آپ انصاف کا دامن نہ چھوڑیں تو انہیں داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے’ کون نہیں جانتا کہ وزیراعظم عمران خان کی انگریزی بہت اچھی ہے، کیونکہ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے ہیں، پوری دنیا میں کرکٹ کھیلنے اور سالوں یورپی ممالک میں رہنے کے باعث ان کی انگریزی بہت شستہ ہے، میں نے کئی اجلاسوں میں ان کا غیر ملکیوں سے انگریزی میں مختصر خطاب سنا ہے’ مختصر اس لیے کہا کہ بعد ازاں انہوں نے اردو میں بات شروع کر دی اور اس بات کو واضح طور پر کہا کہ سننے والوں کی اکثریت اردو والوں کی ہے۔ اسلام آباد میں ریسٹورنٹ کی خواتین مالکان کی طرف سے منیجر کی انگریزی کا مذاق اُڑانے کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو پر ردِعمل دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ”ہمارے ہاں اکثر لوگوں کو انگریزی نہیں آتی، اس لیے ان کے سامنے انگریزی بولنا لوگوں کی توہین ہے، انہوں نے کہا ہمیں اس حوالے سے اپنے لوگوں کی عزت کرنی چاہئے۔” کرۂ ارض پر رہنے والے اربوں کی تعداد میں انسان تقریباً سات ہزار زبانیں بولتے ہیں، جبکہ لہجوں کی بات کی جائے تو اس کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ ایک ہی زبان میں متعدد لہجے پائے جاتے ہیں۔ بعض ماہرین لسانیات کے مطابق اردو دنیا کی ساتویں یا آٹھویں بڑی زبان ہے، دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں اردو بولنے اور سمجھنے والے پائے جاتے ہیں، جن کی تعداد دو ارب کے قریب بتائی جاتی ہے، لیکن اگر اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد چند ہزار بھی ہوتی، جیسے کہ بعض زبانوں کے بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد محض چند ہزار ہے’ تو تب بھی ہمیں اپنی تہذیب اور زبان پر کسی قسم کی شرمندگی کی ضرورت نہیں تھی’ ہمیں غیروں کی نقالی کی بجائے اپنی زبان پر ناز ہونا چاہئے، قائداعظم محمد علی جناح انگریزی زبان پر دسترس رکھنے کے باوجود جب اپنے عوام سے مخاطب ہوتے تو اُردو زبان میں بات کرتے تھے۔ آج جو لوگ اردو کی بجائے انگریزی میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ان میں سے اکثریت ایسوں کی ہے جنہیں درست طور پر انگریزی نہیں آتی ہے’ وہ پوری گفتگو اردو میں کریں گے اور درمیان میں دو چار انگریزی کے رٹے رٹائے جملے بول کر مخاطب پر دھاک بٹھانے کی کوشش کریں گے’ پاکستان میں جو لوگ نجی محفلوں میں انگریزی میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یہ وہ کلاس ہے جن کے خاندان ملک کی اشرافیہ کہلاتے ہیں’ انہیں والدین نے تعلیم کے حصول کیلئے بیرون ملک بھجوایا ، ان میں سے بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو بیرون ممالک سے پڑھ کر اور باقاعدہ ڈگری حاصل کرکے واپس لوٹے ، اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو گئے تو پڑھنے کیلئے تھے لیکن یورپ کی رنگینیوں میں کھو کر رہ گئے لیکن مسلسل یورپی ممالک میں رہنے کے باعث انگریزی سیکھ گئے’ البتہ پاکستان آنے کے بعد بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ جب ہم آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو اس زمانے کی بات ہے’ یہ بتانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مخاطب کو بتایا جا سکے کہ موصوف آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم رہے ہیں ‘ سننے والا بھی سہم کر رہ جاتا ہے، ورنہ یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے کونسی ڈگری حاصل کر رکھی ہے؟ مجھے ذاتی طور پر ایسے لوگوں کیساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے’ جب قریب سے پالا پڑا تو اندازہ ہوا کہ غبارے میں ہوا بھری ہوئی ہے’ کیونکہ ایسے لوگ جنہیں اپنی انگریزی پر بڑا فخر ہوتا ہے انگریزی میں دو سطور لکھنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں ایک مغالطہ یہ پھیلایا جاتا ہے کہ جسے انگریزی آتی ہے وہ دانشور بھی ہے’ خوب سمجھ لیجئے انگریزی کا دانش کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر انگریزی کا دانش کیساتھ کوئی تعلق ہوتا تو مغربی ممالک میں بڑے عہدوں پر غیر انگریزوں کی بھرمار نہ ہوتی۔ میرا ایک دوست جرمنی میں رہ کر آیا تو اس نے بتایا کہ وہاں پر مقامی گاڑیوں مرسیڈیز اور آڈی وغیرہ کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ امریکہ کی بی ایم ڈبلیو کو محض نسلی بنیادوں کو رد کر دیا جاتا ہے،ان ممالک کے لوگ انگریزی کا استعمال انتہائی مجبوری کے عالم میں کرتے ہیں، ان ممالک کے لوگوں کی دانش اور ترقی کی میںجب کوئی کمی نہیں آئی ہے تو ہمیں بھی سمجھ لینا چاہیے کہ انگریزی کے بغیر بھی ہماری دانش میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ ہو سکتا ہے ہم اپنی مادری زبان میں وہ کچھ کر دکھائیں جو غیر زبان میں نہ کر سکے’ یہاں سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ غیروں کی نقالی میں انگریزی بولنے پر فخر کرتے ہیں ان کی اردو بہت کمزور ہوتی ہے حالانکہ اردو ہماری قومی زبان ہے ‘ اس کے نہ آنے پر شرمندگی ہونی چاہیے’ اسی طرح انگریزوں کو اگر اردو یا کوئی دوسری زبان نہیں آتی تو ان کیلئے شرمندگی کی بات نہیں ہے۔ انہیں اپنی زبان پر فخر ہے تو ہمیں کس بات پر پچھتاوا ہے؟ یاد رکھیں غلامی کا پہلا مرحلہ کسی تہذیب و ثقافت اور زبان کی برتری کو قبول کرنا ہے’ جب ہم اسے قبول کر لیں گے اور ہمیں اپنی ثقافت پر شرمندگی محسوس ہونے لگے گی تو پھر مکمل غلامی میں بھی ہمیں دیر نہ لگے گی’ ہاں معاشی ضرورت کی بات الگ ہے’ آپ جتنی زبانیں چاہیں سیکھیں اس پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی