p613 243

افغانستان میں تشدد بڑھنے کا خدشہ

نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے پر نظرثانی کے اعلان کا کئی افغان رہنمائوں کی جانب سے خیرمقدم آبیل مجھے مار کے مصداق امر ہے۔ دوسری جانب ان کا مؤقف بھی یکطرفہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان امن معاہدے پر عمل درآمد سے گریز کرتے ہوئے تشدد کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کی بنیاد پرامن معاہدے کے بعد اب تک وہ اہداف حاصل نہیں ہو سکے جس کیلئے یہ معاہدہ ہوا تھا۔ چند روز قبل افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے بھی طالبان کیساتھ طے پانے والے امن معاہدے پر تنقید کی تھی۔ امراللہ صالح نے کہا تھا کہ معاہدے کے تحت رہائی پا کر دوبارہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے والے طالبان جنگجوؤں کو پھانسی دینا ہی مسئلے کا حل ہے۔ طالبان کی جانب سے جنگ بندی وفائر بندی سے انکار کیساتھ امن مذاکرات جاری رکھنے کا عمل تنقید کا باعث ضروررہا ہے لیکن دوسری جانب تشدد اور جنگجوئی پر آمادہ باغی قوتوں کا امن مذاکرات سے انکارکی بجائے اس میں شمولیت بھی بڑی پیشرفت تھی جس سے اُمید کی جا سکتی تھی کہ بالآخر یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا۔ افغان حکومت میں اگر سکت ہوتی اورعالمی قوتیں اگر کر پاتیں تو افغانستان کی سرزمین پر ڈیزی کٹر بموں کی قالینی بمباری کا عمل کامیاب ہوتا طاقت کے بل بوتے پر زیر کرنے یا زیر ہونے کا عمل سالوں پر محیط نہیں ہوا کرتا، مہینوں اور سال دو سال کی بات ہوا کرتی ہے۔ چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ کے بعد مزاحمین کے حق میں قدرتی طور پر حالات تبدیل اور سازگار ہونا شروع نہ بھی ہو جائیں تو بقاء کی جنگ میں وہ شکست خوردہ نہیں ٹھہرتے، افغانستان میں دیکھا جائے تو سویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے خلاف شروع ہونے والی مدافعت اور مدافعت کار ابھی تک پوری طرح شکست سے دوچار نہیں ہوئے اور نہ ہی سویت فوج اور باون ممالک کی عالمی فوج فتح مند ہوسکی ہے۔ اس طرح کے حالات میں خواہ جیسے بھی ہو ایک دوسرے کی بات سننا اور سلسلہ جنبانی ہی واحد حل نظر آتا ہے۔ طالبان شروع ہی سے جنگ بندی وفائر بندی سے انکار اور مزاحمت کے ساتھ ساتھ مکالمہ کے عمل میں شریک ہوئے تھے اور اب بھی وہ اسی مؤقف اور ردعمل پر قائم ہیں، جو زیادہ معقول امر تو نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کو طاقت کے بل بوتے پر زیر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو تخت کابل کو واشنگٹن کے سائے تلے کسی امن عمل کی ضرورت نہ ہوتی۔ بین الافغان امن مذاکرات کا عمل شروع ہی اس لئے کیا گیا کہ اس لاینحل اور پیچیدہ مسئلے کے حل کا کوئی سرا ہاتھ آسکے، افغان حکومت کی جانب سے نئی امریکی حکومت کے ایک بیان کی اس قدر کھل کر حمایت مزاحم جنگجوئوں کیلئے کوئی حیران کن امر نہ ہوگا بلکہ وہ اس کو مزاحمت جاری رکھنے کی حکمت عملی درست ثابت کرنے کیلئے بطور دلیل پیش کریں گے۔طالبان کی جاری حکمت عملی ان کی مجبوری بھی ہے، اس لئے کہ ان کو معلوم ہے کہ اگر ان کے جنگجوایک مرتبہ ہتھیار رکھ کر کاروبار حیات میں لگ گئے تو ان کی قوت جواب دے جائے گی اور تخت کابل کو برتری ملے گی جس کے بعد حالات اور مذاکرات دونوں ان کے ہاتھوں سے نکل سکتے ہیں۔ اب اگر مذاکراتی عمل واقعی میں معطل ہوتا ہے یا پھر اس کا خاتمہ بھی ہو جاتا ہے تو وہ بدستور میدان میں ہیں ایسے میں البتہ کابل حکومت کو جو سخت مزاحمت اور حملوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے وہ ایک اور خونریز باب ہوگا۔ امریکہ کیلئے بھی یہ مشکل صورتحال ہوگی، جو بائیڈن کیلئے مزید امریکی فوج افغانستان بھیجنا کوئی آسان کام نہ ہوگا۔ کامیابی وفتح مندی کا کوئی واضح امکان نہ ہونے پر ایسا کرنا، دونوں حکومتوں کیلئے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ بہتر ہوگا کہ احسن انداز سے امن مذاکرات جاری رکھے جائیں اور ان کے نتیجہ خیز ہونے کی راہ تلاش کی جائے۔

مزید پڑھیں:  بارش سے پہلے چھت کا انتظام کیوں نہیں؟