2 398

یونیورسٹیوں کا مالی وعلمی بحران

کیا بھلے دن تھے، جب خیبر پختونخوا میں پشاور یونیورسٹی اور پھر گومل یونیورسٹی کے طلباء کی علمی پیاس بجھانے کیلئے آغوش مادر کا کردار ادا کرتی تھیں۔ اگرچہ بعض علاقوں کے غریب طلباء کیلئے گھروں سے دور آنے جانے، ہاسٹلوں میں قیام وغیرہ کے حوالے سے مشکلات ضرور تھیں لیکن ان مشکلات اور تکالیف سے گزر کر یہ طلبہ کندن بننے کے مراحل بھی طے کر لیتے اور ان کے دلوں میں علم کی قدردانی بھی پیدا ہوتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ خیبر پختونخوا کی آبادی بڑھنے لگی اور خوب بڑھی، اس وقت پختونخوا کی شرح آبادی میں اضافے کی رفتار پاکستان کے باقی ماندہ صوبوں سے زیادہ ہے، اسی وجہ سے یہاں آبادی کے تناسب، اداروں میں اضافے کی ضرورت بھی ہوئی، لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ جس طرح پاکستان میں مردم شماری کے حوالے سے مستند سائنسی بنیادوں پر انتظامات نہیں ہوئے، اسی طرح بڑھتی آبادی کے حوالے اور تناسب سے بھی کبھی ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، سڑکوں اور روزگار وغیرہ کے حوالے کبھی بھی مناسب انتظامات واقدامات نہیں کئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ آبادی بڑھ گئی اور وسائل کم پڑگئے۔ پاکستان کا آبادی اور وسائل کے حوالے سے سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ اسی فیصد وسائل دس پندرہ فیصد آبادی (اشرافیہ) کے ہاتھوں میں رہے ہیں جس کی وجہ سے عوام کی بنیادی ضروریات کیلئے ضروری وسائل میسر نہیں ہیں۔
قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں سے لیکر تحریک انصاف کی حکومت تک کہ اُنہوں نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انقلاب برپا کرنے کے دعوے کئے تھے، اب حال یہ ہوگیا ہے کہ اگرچہ پختونخوا کے تقریباً ہر ضلع کی سطح پر ایک یونیورسٹی اور متعدد کالجز اور بعض میں دو تین جامعات وجود میں آچکی ہیں لیکن اس کے پیچھے بھی علمی ترقی اور عوام کی ہمدردی سے زیادہ سیاسی اور مادی مفادات کا حصول تھا۔ پختونخوا کی ایک سیاسی جماعت نے اپنے پانچ سالہ دوراقتدار میں اپنے سیاسی مراکز میں دو یونیورسٹیاں، دو کالج وغیرہ قائم کئے تو وہاں اپنی مرضی کے وائس چانسلرز کی تعیناتی سے لیکر اُن کے ذریعے اپنی سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر جامعات میں بھرتیوں کو ترجیح حاصل رہی۔ اس سے ایک طرف میرٹ کا قتل ہوا اور دوسری طرف ضرورت اور میرٹ سے ہٹ کر بھرتیوں کے سبب یونیورسٹیوں کے بجٹ پر مالی بوجھ اس انداز سے پڑنے لگا کہ اب ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔پختونخوا میں سیاسی جماعتوں کے درمیان یونیورسٹیوں کے قیام پر بھی مقابلہ بازی شروع ہوئی، کیونکہ یہ جامعات کی تعداد کو سیاسی اسکورنگ کیلئے استعمال کرنے لگے اور ساتھ ہر سیاسی جماعت عموماً اپنا وائس چانسلر اور اُس کے ذریعے ”اپنے” لوگوں کی بھرتی اور ضرورت سے زیادہ بھرتیوں میں یوں مسابقت میں لگے رہے کہ کسی کو اس حوالے سے مستقبل کی فکر ہی نہ ہوئی اور ہم تو ویسے بھی عمومی طور پر ”حال مست” اور قرض کی مے پینے والی قوم کے طور پر مشہور ہیں لہٰذا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک اور دیگر اپنوں وغیرہ سے قرض لیتے رہے، تاکہ دیوالیہ پن سے بچتے ہوئے پھر قرض لینے کے اہل رہیں۔ صوبہ پختونخوا میں کہنے کو تو جامعات کا جال بچھا دیا لیکن یہ ایسا جال ثابت ہوا کہ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہا، اوپر سے ہم ٹھہرے ترقی یافتہ اقوام اور ملکوں کے نقال، آج تک نصاب ونظام تعلیم کے بارے میں کوئی ایسا دیسی انتظام نہ کر سکے جو ہمارے دیس کی ضرورت کے مطابق ہو۔ اسی تسلسل میں دوسالہ بی اے اور ایم اے کے پروگرام متروک کر کے بی ایس چارسالہ پروگرام میں داخل ہوئے جو ہمارے طلباء کیلئے چوں چوں کا مربّہ اور بھان متی کا کنبہ ثابت ہورہا ہے۔ جامعہ پشاور دیگر جامعات کے قیام سے قبل کبھی مالی وعلمی بحران کا شکار نہ تھا، بلکہ یہ ”ام الجامعات” ہونے کے سبب عزت ووقار کی حامل رہا لیکن دیگر ”ڈیڑھ اینٹ” کی جامعات نے اس یونیورسٹی کے علمی معیار اور مالی معاملات کو اس حد تک متاثر کیا کہ ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے” کے مصداق جنوری کے مہینے کی پوری تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں رہی اور حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت بڑا بحران ہے کیونکہ ملازمین اس پر احتجاج کریں گے اور جبکہ بات بین الاقوامی میڈیا تک پہنچ چکی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایچ ای سی اور دیگر متعلقہ ادارے فی الفور ان مسائل کو ٹھوس بنیادی پرونس فار آل (ہمیشہ کیلئے) حل کرنے کے انتظامات کریں۔ ہمارے ہاں ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ ابتداء میں حکومت اور ادارے لوگوں (ملازمین) کے احتجاج کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے لیکن جب سڑکیں بند ہوجاتی ہیں اور ادارے بند ہونے لگتے ہیں تو پھر دوڑ دھوپ شروع ہو جاتی ہے۔ اس کا فوری حل یہ ہے کہ تعلیم کیلئے کم ازکم پانچ فیصد بجٹ مختص کر کے آئندہ کیلئے ملازمین حاصل کرنے کیلئے شفاف ترین طریقہ اور ضرورت کے مطابق بھرتیاں کرنے کے سخت اقدامات کئے جائیں، ورنہ خدا نہ کرے کہ ادارے اور خاص کر تعلیمی ادارے یوں ہی بحرانوں کے شکار ہوتے رہے تو قومیں بحرانوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ