5 298

آن لائن امتحانات کیلئے احتجاجی مظاہرے

کورونا وائرس کی وجہ سے ملکی معیشت کیساتھ ساتھ تعلیمی نظام کو چو دھچکا لگا ہے اس کوٹھیک ہونے میں بہت عرصہ لگے گا۔ آن لائن کلاسز کا نظریہ پوری دنیا کیساتھ ساتھ وطن عزیز میں بھی پروان چڑھا مگر اس کے دوررس نتائج سامنے نہیں آئے کیونکہ ہمارے طالب علموں کے پاس مذکورہ سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ہر طالب علم کے پاس لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی سہولت نہیں تھی، جس کے باعث مسائل سر اُبھارنے لگے اور اس پر تنقید شروع ہوئی کہ تعلیمی ادارے کھول دئیے جائیں۔ ہمیں آن لائن تعلیم کی سمجھ نہیں آتی، یہی حال اساتذہ کا بھی تھا، وہ بھی اس نئی صورتحال سے پریشان تھے مگر ہائیر ایجوکیشن کے احکامات کے پیش نظر چار وناچار تمام تعلیمی ادارے آن لائن موڈ پر چلے گئے اور پھر آن لائن امتحانات بھی لئے گئے۔ جس میں طلبہ نے صرف کٹ کاپی، پیسٹ ہی کیا تھا۔ انہیں سوالوں کی سمجھ ہی نہیں آئی، پھر کورونا کی دوسری لہر آئی اور تعلیمی ادارے جو کچھ عرصہ کیلئے کھولے گئے تھے، دوبارہ بند کئے گئے۔ جب تعلیمی ادارے بند تھے تب بھی طالب علم شور مچا رہے تھے کہ یونیورسٹیاں کھول دی جائیں۔ جب بند ہونے لگے تب بھی شور مچ گیا مگر تعلیمی نظام کی اتنے عرصے میں اتنی تباہی ہوچکی تھی کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ نومبر کے بعد پھر تعلیمی ادارے آن لائن کلاسز پر چلے گئے اور جب کرونا کی دوسری لہر کا زور کم ہونے لگا تو وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے تعلیمی ادارے دوبارہ مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کردیا اور پہلے مرحلے میں نویں تا بارہویں جماعت کیلئے اسکول و کالجز کھول دئیے گئے جس کے بعد یونیورسٹیوں کی باری آئی۔ گزشتہ سال طلبہ کے چونکہ سالانہ امتحانات بھی منسوخ کر دئیے گئے تھے اور طلبہ کو اگلی جماعتوں میں پروموٹ کیا گیا تھا، لیکن شفقت محمود نے اعلان کیا کہ رواں سال طلبہ کے امتحانات لازمی ہوں گے اور انہیں منسوخ نہیں کیا جائے گا، جس کے بعد یونیورسٹیوں نے فروری کے مہینے سے امتحانات دینے کی منصوبہ بندی شروع کی کہ یونیورسٹیاں ویسے بھی فرروی کے مہینے میں کھل رہی ہیں، جس کے بعد ملک بھر میں یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے، جس میں طلباء سمیت طالبات بھی سڑکوں پر آئیں اور احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔ اسلام آباد میں نمل یونیورسٹی کے باہر طلبہ جمع ہیں تو دوسری جانب لاہور میں گورنر ہاؤس کے باہر بھی طلبہ کا اکٹھے ہوئے جبکہ پشاور یونیورسٹی کے طلبہ بھی میدان میں کھود پڑے ہیں اور وومین یونیورسٹی صوابی کی طالبات نے بھی منظم طریقے سے ٹوپی روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کیا۔ واضح رہے کہ یہ تمام طلبہ ایک دفعہ آن لائن امتحان دے چکے ہیں جس میں اساتذہ کو صرف اور صرف گوگل اور کتابوں سے مٹیریل ہی جوابی پرچے میں ملا، جب پیپر لئے گئے تو طلبہ کے چودہ طبق روشن ہوگئے اس لئے وہ فزیکل امتحان دینے کے مخالف ہیں، کہ وہ نقل نہیں کرسکیں گے۔ پاکستان میں پہلے گزشتہ سال فروری میں تعلیمی ادارے بند کیے گئے تھے جو کئی ماہ کی بندش کے بعد ستمبر2020 میں کھولے گئے اور پھر کورونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث نومبر2020 میں دوبارہ بند کر دئیے گئے تھے۔ کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران اکثر تعلیمی اداروں میں تو سرے سے پڑھائی ہی نہیں ہو سکی لیکن کچھ اسکول، کالجز و یونیورسٹیوں نے تدریسی عمل آن لائن کلاسز کے ذریعے جاری رکھا ہوا تھا۔ مگر جب یکم فروری سے یونیورسٹیاں کھلنے جا رہی ہیں تو اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی نے اعلامیہ جاری کیا ہے کہ طلبہ کے امتحانات کیمپس میں ہوں گے۔ کچھ دیگر تعلیمی اداروں نے بھی امتحانات کیمپس میں لینے کا فیصلہ کیا ہے جس کیخلاف طلبہ نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔ ان طلبہ کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے کلاسز آن لائن لی ہیں اور کورونا وائرس کی وبا کے دوران انہیں آن لائن پڑھایا گیا ہے تو امتحانات بھی آن لائن ہی لیے جائیں۔ کچھ طلبہ فیس واپسی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں مگر تعلیمی اداروں کی جانب سے ابھی تک کوئی خاص لائحہ عمل سامنے نہیں آیا جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے طلبا وطالبات اس حوالے سے ابھی تک احتجاج کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ طلبہ وطالبات نے سوشل میڈیا پر فیس بک، واٹس اپ گروپس اور ٹویٹر پر بھی احتجاجی مہم شروع کر رکھی ہے اور پاکستان میں اس وقت ”اسٹوڈنٹس وانٹ آن لائن ایگزام” کا ہیش ٹیگ نمبر ون پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ طلبہ کا واضح طور کہنا ہے کہ ”ہم امتحانات دینے کیخلاف نہیں ہیں، ہم صرف کیمپس میں امتحانات کیخلاف ہیں، کیونکہ پورا سمسٹر آن لائن تھا اور اب امتحانات بھی آن لائن ہونے چاہیے۔ براہ کرم ہمارے مستقبل سے کھیلنا بند کریں۔” اس کے برعکس بہت سے طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیاکہ جو طلبہ آن لائن امتحانات کا مطالبہ کر رہے ہیں ان سب نے آن لائن کلاسز سنجیدگی سے نہیں لیں۔ واضح رہے کہ جب کووڈ کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند تھے تو طلبہ آن لائن امتحانات کی مخالفت کر رہے تھے لیکن اب ان کا کہنا ہے کہ امتحانات کیمپس کے بجائے آن لائن منعقد کروائے جائیں۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''