p613 245

این ٹی ایس کے خلاف بڑھتی شکایات

خیبرپختونخوا حکومت کا این ٹی ایس پیپر لیک ہونے کے معاملے کا نوٹس لینے اور این ٹی ایس حکام سے انکوائری کیلئے طلبی احسن قدم ہے، اسی طرح کے واقعات کم ہی سامنے آتے ہیں۔ ماضی میں بھی این ٹی ایس کے حوالے سے تحفظات اور شکایات سامنے آرہی ہیں جن کی انکوائری کا وعدہ کیا گیا مگر اس کے بعد بات آئی گئی ہوگئی۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہونے کا خدشہ ہے انکوائری میں پیپر لیک ہونے یا نہ ہونے کا تعین اپنی جگہ ضروری ہے لیکن اس سے قطع نظر اُمیدواروں کی جانب سے مسلسل شکایات بھی بلاوجہ نہیں۔ واضح رہے کہ 24جنوری کو این ٹی ایس کے ذریعے سی ٹی کی آسامیوں کیلئے ٹیسٹ مقرر کیا گیا تھا تاہم ٹیسٹ سے قبل ہی پیپرلیک ہوگیا تھااور متعلقہ پیپرسوشل میڈیا پر بھی شیئرہوتا رہا ۔ پیپرلیک ہونے پر سوشل میڈیا پربھی این ٹی ایس اور حکومت کو تنقیدکانشانہ بنایاگیا اوراس کی اعلیٰ سطحی انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ پیپر لیک ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ آخر امیدواروں کی بڑی تعداد کو شکایات کیوں ہیں اور حکومت نے کبھی ان شکایات کی سنجیدگی سے تحقیقات کرواکے امیدواروں کی تسلی اور ذمہ دار عناصر کو بے نقاب کرنے میں تساہل کا مظاہرہ کیوں کیا۔ بعض حلقے اس میں اہم کاروباری شراکت داروں کے باعث شکایات درشکایات کا نوٹس نہ لینے کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ جب تک مختلف قسم کی افواہوں کا تدارک اور حقیقت حال واضح نہیں ہوگی، ٹیسٹنگ کے نظام پر اُمیدواروں کا اعتماد بحال نہ ہوگا جسے بحال کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اس معاملے کی تحقیقات کیساتھ ساتھ اُمیدواروں کی عمومی شکایات کا جائزہ لے کہ این ٹی ایس کے نظام میں ایسی کیا خرابیاں اور خامیاں ہیں جو شکایات اور الزامات کا سبب ہیں۔ ان کا تفصیلی جائزہ لینے اور این ٹی ایس کو شکوک وشبہات سے پاک ادارہ بنانے کی ضرورت ہے یا پھر حکومت پبلک سروس کمیشن کو اضلاع کی سطح پر اتنا فعال کرے کہ کسی ٹیسٹنگ ایجنسی کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔
ٹوپک زما قانون کا مظاہرہ
چور کو سرعام گولی مارنے اور ان کا گھر جلانے کا اعلان کر کے ضلع خیبر میں حکومتی عملداری اور قانون کے نظا م کا حال ہی میں جو مذاق اُڑایا گیا تھا ایک مرتبہ پھر اس طرح کا اقدام سامنے آیا ہے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ باڑہ شلوبر اور ذخہ خیل کے درمیان زمین کا تنازعہ شدت اختیار کرنے کے بعد قبیلہ شلوبر نے اچینی شلوبر میں رہائش پذیر ذخہ خیل کو اڑتالیس گھنٹوں میں علاقہ خالی کرنے کی ڈیڈ لائن دیدی ہے۔ جاری حالات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ضلع خیبر اب تک عملی طور پر ضلع بنا ہے اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ اور پولیس قانون کی عملداری کیلئے موجود ہے بلکہ ابھی تک قبائلی نظام رائج ہے جس میں حکومتی عملداری کے برعکس خلاف قانون فیصلے اعلانات اور دھمکیاں دی جاتی ہیں جس پر ضلعی انتظامیہ اور پولیس کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ پولیس اور انتظامیہ کی موجودگی میں چور کو گولی مارنے، ان کا نماز جنازہ نہ پڑھنے اور نہ ہونے دینے، مخالفین کا گھر جلانے کی دھمکیاں اور تنازعہ شدت اختیار کرنے پر ٹوپک زما قانون قسم کا رویہ کیسے اختیار کیا جارہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کا اس طرح کے واقعات کے باوجود حرکت میں نہ آنا ان کی کمزوری پر دال ضرور ہے لیکن حکومت کو اتنی بھی بے بس نہیں ہونا چاہئے۔ انضمام کے باوجود اگر قبائلی طرز ہی اپنانے کی اجازت دی جارہی ہے تو پھر انضمام اور حکومتی عملداری میں لانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور قانون کے دائرے میں رہنے کا شہریوں کو پابند بنایا جانا چاہئے ان کو احساس دلایا جائے کہ اب ان کا علاقہ قبائلی علاقہ نہ رہا، قانون پر عملدرآمد کے تقاضے جب تک پورے نہ کئے جائیں اور اہالیان علاقہ و عمائدین کو اچھی طرح سمجھا نہ دیا جائے تو اس طرح کے واقعات معمول بن جائیں گے جن کو روکنا ممکن نہ ہوگا۔
سعی بسیار مگر لاحاصل
صوبہ بھر میں تین ماہ کے دوران 7086 دکانیں سیل کرنا، 5658 ایف آئی آرز کا اندراج اور چھ کروڑ اکسٹھ لاکھ روپے جرمانہ کی مد میں وصولی، یقینا سنجیدہ اقدامات کی زد میں آتا ہے۔ انتظامیہ کی پوری کوشش کے باوجود مہنگائی کا جن قابو میں نہ آنا، عوام اور انتظامیہ افسران سبھی کیلئے پریشان کن امر ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں سب سے زیادہ جرمانہ کی وصولی ہوئی لیکن یہاں معاملہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا ہی ہے۔ حکومت کے پاس یوٹیلیٹی سٹورز اتواربازار اور سستا بازاروں کی صورت میں مارکیٹ کے مقابلے میں مناسب داموں اشیاء کی فراہمی اور خریداری کا جو موقع موجود ہے جب تک اس نظام کو پورے صوبے میں اور ہر علاقے میں فعال کرکے مارکیٹ کا مقابلہ متبادل مارکیٹ کے قیام سے نہیں کیا جاتا اس وقت تک مہنگائی وگرانی کا توڑ ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے