4 288

سول سروس اصلاحات

تحریک انصاف حکومت نے سول سروس اصلاحات کے نام پر حال ہی میں ترقیوں، نظم وضبط اور جبری ریٹائرمنٹ کے بارے میں نئے قوانین لانے کا اعلان کیا ہے۔ ان قوانین کے تحت سرکاری ملازمین کی ترقیوں، سروس سے برخاستگی اور نظم وضبط کی خلاف ورزی کے بارے میں قوانین اور جبری ریٹائرمنٹ کو قانونی شکل دیدی گئی ہے لیکن اگر ان نئے قوانین کا بغور جائزہ لیں تو ان میں بظاہر کوئی نئی اور دوررس تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔
یہ تبدیلیاں بظاہر مشرف دور کے قوانین سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، حیرانی ہوتی ہے کہ سول سروس میں اصلاحات لانے والی ٹاسک فورس نو سو دنوں سے زیادہ کام کرنے کے بعد صرف یہ زیبائشی تبدیلی لاسکی ہے۔ کیا اتنے لمبے عرصے اور ایک کل وقتی مشیر، قومی خزانے کے کثیر خرچ کے بعد اصلاحات کے بارے میں یہی سوچ سکے۔ اس پرانی شراب کو نئی بوتل میں پیش کرنے کیلئے اس قدر اہتمام کی کیا ضرورت تھی؟ ایسا لگتا ہے کہ اصلاحات کیلئے موجودہ حکومت کے قائم کردہ بے تحاشہ ادارے جن میں ٹاسک فورس، سیکرٹریز کمیٹی، خصوصی معاون برائے اسٹیبلشمنٹ، وزیرتعلیم کی سربراہی میں قائم کابینہ کمیٹی شامل ہیں فکرنو کی شدید کمی ہے۔
سول سروس میں یقینا اصلاحات کی اشد ضرورت ہے مگر حکومت کی منشا ان اصلاحات کے ذریعے من پسند افسروں کی ترقی اور غیر پسندیدہ کی جبری ریٹائرمنٹ کا اہتمام کرنا ہو تو اس قسم کی اصلاحات کبھی پائیدار نہیں ہو سکتیں۔ ان اصلاحات کا انجام ہم مشرف اور نواز شریف کے حالیہ دور اور پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت میں دیکھ چکے ہیں جس میں من پسند افراد کو تیز رفتار ترقیاں دی گئیں اور قابل مگر ناپسندیدہ افسران کو مختلف من گھڑت الزامات جن میں نااہلیت، بدعنوانی اور جھوٹی انٹیلی جنس رپورٹس شامل تھیں کی بنیادوں پر ترقیوں سے محروم کیا گیا۔ سول سروس کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ اس میں سیاسی مداخلت کا سلسلہ ختم ہو اور ترقیوں اور ریٹائرمنٹ کیلئے ایک منصفانہ نظام بنایا جائے جس میں انسانی تعصب، محکمہ جاتی وفاداری، سیاسی مداخلت اور انٹیلی جنس اداروں کا کم ازکم کردار ہو۔
اگر ہماری افواج میں ترقیوں کا ایک غیرمتنازعہ نظام موجود ہے اور سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لیکر لیفٹیننٹ جنرل تک کی ترقی فوج کا ادارہ بغیر سیاسی قیادت کی مداخلت یا ان افسروں کے بارے میں حکومت کے مختلف خیالات کے باوجود کرسکتا ہے تو اسی طرح کا نظام جس میں صرف افسر کی پیشہ ورانہ کارکردگی کی بنیاد پر ترقی یا تنزلی ہو، سول سروس میں کیوں نہیں متعارف کرایا جا سکتا۔ اس منصفانہ اور جدید خطوط پر مبنی نظام کو متعارف کرانے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی فرسودہ ساخت میں بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ صرف انسانی وسائل کو صحیح طور پر استعمال کرنے والے اور اس میدان کے ماہرین اس محکمے میں شامل ہونے چاہئے۔ قوانین میں حالیہ تبدیلیاں ڈی ایم جی کے غلبے کو مزید مضبوط کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ نئے قوانین کے تحت تربیتی ادارے، جو کہ ڈی ایم جی افسران سے بھرے ہوئے ہیں، ترقیوں میں اہم کردار ادا کریں گے اور ان کی سفارشات کو اضافی اور فیصلہ کن وزن دیا جائے گا۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ یہ ادارے ڈی ایم جی گروپ کے افسران کیساتھ ترجیحی سلوک کرتے ہوئے تربیت کے دوران ان کی قابلیت کے تعین میں کافی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کے افسروں کی قابلیت جانچنے کا پیمانہ انتہائی سخت ہوتا ہے۔ اگر یہ تربیتی ادارے پیشہ وارانہ تربیت کار چلا رہے ہوتے تو پھر ان اداروں کی سفارشات میں وزن ہوتا مگر ان کی موجودہ ساخت میں یہ ممکن نہیں۔
چونکہ سیاسی حکومتوں کو اپنے منشور اور ایجنڈا پر عمل کرانے کیلئے سول سروس کی ضرورت پڑتی ہے اور اسی تعلق کی وجہ سے سول سروس کچھ حد تک سیاسی ہو جاتی ہے۔ اس تعلق کو ختم کرنے کیلئے ہمارے قوانین میں مناسب تبدیلی کر کے اس بات کا اہتمام کیا جا سکتا ہے کہ ہر سیاسی حکومت اپنی مدت کے دوران ہر شعبے کے ماہر اور اپنی مرضی کے اہلکار ہر وزارت میں لاسکے جو اس کے انتخابی وعدوں پر عمل کرانے میں مدد کر سکیں۔ ان اہلکاروں کی مدت ملازمت حکومت ختم ہونے کیساتھ ختم ہو جانی چاہئے۔ یہی طریقہ پاکستان میں پہلے سے سیاسی سفیروں کی تعیناتی کے بارے میں اختیار کیا جا رہا ہے۔
یہ طریقہ کار امریکہ میں لمبے عرصے سے کامیابی سے چلایا جا رہا ہے اور ہمیں اپنے حالات کے مطابق اسی طرح کا کوئی نظام لانے کی ضرورت ہے۔ اس سے سول سروس بھی سیاسی ہونے سے بچ جائے گی اور حکومت وقت اپنے منشور اور انتخابی وعدوں پر عمل کرتے ہوئے عوام کو بہتر سہولیات مہیا کر سکے گی۔ اس نظام سے شاید ہم فواد حسن فواد اور اعظم خان جیسے قابل افسران کو سیاسی قیادت کے بہت قریب، ان کے آلہ کار اور نیب کا شکار ہونے سے بچا سکیں۔

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر