4 30

سوشل میڈیا کا مثبت استعمال

کوئی چیز بھی اپنی اصل میں اچھی یا بری نہیں ہوتی، بس اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔ ٹی وی پر بہت زیادہ جھوٹ بھی چلتا رہتا ہے اور سچی خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں، بہت سی ایسی چیزیں بھی دکھائی جاتی ہیں جو دکھانے کی نہیں ہوتیں، ناچ گانے بھی چلتے رہتے ہیں اور بڑے اچھے سکالرز کی تقاریر بھی سننے کو ملتی ہیں! سوشل میڈیا کا کچھ عرصہ پہلے وجود نہیں تھا لیکن اب ہمارے معاشرے میں اس کا کردار روزبروز بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ہر طبقے اور ہر عمر کے افراد سوشل میڈیا پر اپنی اپنی صوابدید کے مطابق پوسٹیں لگاتے رہتے ہیں، اس پر بہت سی اچھی بری چیزیں چلتی رہتی ہیں جن میں نیت کی خرابی کیساتھ ساتھ بے خبری کے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا! اس حوالے سے محکمۂ ہائیر ایجوکیشن نے قبائلی اضلاع سمیت صوبہ بھر کے سرکاری کالجوں کے اساتذہ اور طلبہ میں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے رجحان کیلئے کونسلنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت تمام بوائز اور گرلز کالجوں میں تعلیمی سیشن شروع ہونے سے پہلے اور سیشن کے اختتام پر خصوصی کونسلنگ سیشن کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ڈائرکٹر ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے تمام اضلاع کے سرکاری کالجوں کے پرنسپلز کو باقاعدہ مراسلات بھجوا دئیے گئے ہیں جن کے مطابق کونسلنگ متعلقہ کالجوں میں تعینات کمپیوٹر سائنس کے اساتذہ کے ذریعے کروائی جائے گی جس میں متعلقہ اساتذہ کرام چالیس سے پچاس منٹ دورانیہ پر مشتمل اپنی پریزنٹیشن دیں گے جس میں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوگی۔ ہائیر ایجوکیشن نے یقینا بڑی اچھی طرف توجہ مرکوز کی ہے، طلبہ وطالبات کیلئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیسے کرنا چاہئے؟ آج سوشل میڈیا کا ڈنکا چاردانگ عالم میں بج رہا ہے جس طرح آج کی جدید دنیا میں بہت سی نئی چیزیں متعارف ہوئی ہیں بالکل اسی طرح سوشل میڈیا بھی اپنے نت نئے قوانین کیساتھ میدان میں موجود ہے۔ قوانین نئے ہیں بے خبری کا پہلو بھی اپنی جگہ موجود ہے اور ہم سب صبح سے شام تک سوشل میڈیا پر اپنی اپنی جنگیں لڑتے رہتے ہیں، اس پر بہت سے گھر بیٹھے قسم کے مفتی، ڈاکٹرز، شاعر، مصلح، سکالرز اور نجانے کون کون اپنا اپنا چورن بیچ رہے ہوتے ہیں! ہمارے معاشرے کا ایک عجیب رجحان یہ ہے کہ کسی بھی برائی کا سوچیں تو ذہن میں سیاستدان آجاتے ہیں سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ کھنچاتانی سیاستدانوں ہی کی ہوتی ہے جسے دیکھئے سیاستدانوں پر اپنے دل کا غبار نکال رہا ہے ہر قسم کا کیچڑ اُچھالنے کیلئے سوشل میڈیا اب ایک بہترین ذریعہ بن چکا ہے، ٹویٹ پر ٹویٹ کئے جارہے ہیں، اگر کسی تقریر کے دوران کسی سیاستدان کی زبان پھسل گئی (سب انسان ہیں غلطیاں ہوتی رہتی ہیں) تو پھر اس کی وہ درگت بنائی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ! بقول غالب:
نے ہا تھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
جس طرح مہذب معاشروں میں انسانی اقدار کا خیال رکھا جاتا ہے دوسروں کی عزت سربازار نیلام نہیں کی جاتی، اگر کسی سے کوئی غلطی بھی ہوجائے تو افہام وتفہیم کیساتھ درمیانی راہ نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اگر سوشل میڈیا پر کسی کی ذاتی تقریب کی کوئی ویڈیو غلطی سے لیک ہوجائے تو پھر اس کی تو شامت ہی آجاتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اس پر تبصرے شروع ہوجاتے ہیں، ایسے ایسے جملے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ شریف آدمی کو خودکشی پر مجبور کردیا جاتا ہے! جس طرح آپ کا کمپیوٹر کسی بھی وقت وائرس کا نشانہ بن سکتا ہے، اسی طرح سوشل میڈیا پر کسی بھی وقت کوئی برخود غلط قسم کا وائرس آپ کی زندگی میں زہر گھول سکتا ہے، آپ کو سربازار رسوا کر سکتا ہے! اب سوشل میڈیا صرف گھر یا دفتر تک محدود نہیں رہا بلکہ آپ کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے سیل فون کے ذریعے آپ ہر وقت سوشل میڈیا پر حاضر جناب ہیں۔ دراصل اس ایجاد کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہم اپنی معلومات ایک دوسرے کیساتھ شیئر کرسکیں، اس سے پہلے اس قسم کی معلومات حاصل کرنا بہت مشکل تھا اب ہر قسم کی معلومات ہماری اُنگلیوں کیساتھ جڑی ہوئی ہیں یہ یقینا سوشل میڈیا کی بہت بڑی افادیت ہے۔ وہ کتابیں جو آپ کو بڑی مشکل سے دستیاب ہوتی تھیں اب وہ آپ پی ڈی ایف فارم میں بڑی آسانی کیساتھ پڑھ سکتے ہیں، اسی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی ہر نئی دریافت سے آپ سوشل میڈیا کے ذریعے باخبر ہوسکتے ہیں، انٹرنیٹ ہم سب کی زندگی میں بہت بڑا انقلاب لایا ہے اور اس سے اسی وقت فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے جب اس کا مثبت استعمال کیا جائے! سوشل میڈیا پر ہمارے پاس مختلف علمائے کرام کے صفحات موجود ہیں جن سے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اساتذہ کرام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ طلبہ کو سوشل میڈیا کے مثبت پہلو سے آگاہ کریں! اس کی ایک افادیت یہ بھی ہے کہ یہاں ہر نیا موضوع دستیاب ہوتا ہے وہ موضوع جس پر ابھی بات نہیں ہوئی، لیکن آپ سوشل میڈیا پر جاکر اس کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں! اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ غلط قسم کی معلومات کو سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا ہے، اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں معلومات گوگل پر جاکر چیک کرلو وہاں موجود ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ گوگل پر موجود معلومات درست بھی ہو! سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہر قسم کی معلومات کو بغیر سوچے سمجھے جانچے پرکھے آگے بڑھا دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک انتہائی ناقص اور غلط قسم کی معلومات کو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد درست سمجھتی ہے! سوشل میڈیا کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن اس کا مثبت استعمال ہونا چاہئے اور یہ مناسب تربیت کے بغیرکسی بھی طور ممکن نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی