5 303

کورونا ویکسین پر اجارہ داری کا خواب

ترقی یافتہ ممالک ہر کچھ عرصہ کے بعد ایسی چال چلتے ہیں کہ جس سے ترقی پذیر ممالک اور پسماندہ ممالک پِس کر رہ جاتے ہیں’ آج سے چند سال قبل کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ دنیا بھر کی معیشت ایک ویکسین کے گرد گردش کرنے لگے گی’ آٹھ ترقی یافتہ ممالک نے آٹھ ارب ویکسین کی ڈوز اپنے عوام کیلئے جمع کر لی ہے یا اس قدر بڑی تعداد میں ویکسین کے حصول کیلئے میڈیسن کمپنیوں کیساتھ معاہدے کر رکھے ہیں’ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ دنیا کے200 کے قریب ممالک کی کل آبادی تقریباً آٹھ ارب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کی کل آبادی کی ضروریات کے مطابق چند ممالک نے ویکسین سٹاک کر کے رکھ لی ہے’ جہاں تک مذکورہ ممالک کا اپنے شہریوں کی جانوں کو محفوظ بنانے کا دعویٰ ہے تو اس میں صرف اس حد تک تو صداقت ہے کہ وہ ہنگامی طور پر اپنے شہریوں کو کورونا ویکسین کی ڈوز دے کر ان کی جانوں کو محفوظ بنائیں گے لیکن اصل کہانی ویکسین کی پسماندہ ممالک کو فروخت ہوگی’ راہ ہموار کرنے کیلئے ترقی یافتہ ممالک چند ایک کروڑ ویکسین کی ڈوز عطیہ بھی کریں گے لیکن بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اربوںکی تعداد میں جب ویکسین ڈوز فروخت ہوںگی تو غریب اور پسماندہ ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جائیں گے، کیونکہ دنیا کو ویکسین کی ضرورت ہوگی اور ویکسین پر چند ایک ممالک کی اجارہ داری ہونے کے باعث اکثر ممالک مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوں گے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر امیر ممالک ویکسین پر اجارہ داری کا سوچ رہے ہیں تو یہ سوچ انہیں بھی متاثر کرے گی کیونکہ پسماندہ و ترقی پذیر ممالک میں وباء میں اضافے کے قوی امکانات ہوں گے’ یوں دنیا کے بڑے ممالک جن کی معیشت کا زیادہ تر انحصار اپنی اشیاء کو ترقی پذیر ممالک کی منڈیوں تک پہنچانے پر ہوتا ہے وہ شدید متاثر ہوگی’ ایک ریسرچ سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے بیشتر مالک سے رابطہ منقطع ہونے کی صورت میں زیادہ معاشی نقصان ترقی یافتہ ممالک کو ہی اُٹھانا پڑ سکتا ہے’ اس حوالے سے ویکسین کی منصفانہ تقسیم ہی مسئلے کا مستقل حل اور سب کے مفاد میں ہے’ کیونکہ انٹرنیٹ کے بعد دنیا کے گلوبل ویلیج بن جانے کے بعد دنیا کی معیشتیں ایک دوسرے کیساتھ باہم جڑی ہوئی ہیں’ ماہرین اس کی یہ مثال بھی پیش کرتے ہیں کہ جس طرح سے مختلف سہاروں پر کوئی عمارت قائم کی جائے اور ان سہاروں میں سے اگر ایک کو بھی ہٹایا جائے تو ساری عمارت دھڑام سے نیچے آگرتی ہے’ بالکل ایسے ہی آج کل کی معیشتیں ہیں’ اگر بیرونی سہارا ختم کیا جائے تو معیشت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ کووڈ19 کا تعلق سرحدوں تک محدود نہیں ہے’ جن ممالک نے دوسرے ممالک کے شہریوںکو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دی تھی ان ممالک میں بھی کورونا وائرس پھیل گیا’ دنیا پر یہ بھی عیاں ہوا ہے کہ ایٹمی دھماکے کی صورت میں تو بچنے کے امکانات ہیں لیکن کووڈ19 بسیار احتیاط کے باوجود ہو سکتا ہے اور متعدد ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے بظاہر ہر طرح کی احتیاط اختیار کی لیکن اس کے باوجود وہ کورونا سے متاثر ہو گئے۔ معاشی سروے رپورٹ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آگے چل کر کورونا کی وبا اگر شدت اختیار کرتی ہے اور ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے اس کا شکار زیادہ غریب ممالک ہوتے ہیں تو پھر اس سے بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوںگے’ لوگوں کی قوت خرید ختم ہو کر رہ جائے گی’ جس کا بالواسطہ نقصان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پہنچ سکتا ہے کیونکہ ان کا خریدار ختم ہو جائے گا۔ دنیا کے بڑے سپلائرز’ آٹو موٹیو’ ٹیکسٹائل’ تعمیرات اور ریٹیلز کے شعبے بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں’ اسی طرح تیل پیدا کرنے والے اور سیاحوں پر انحصار کرنے والے ممالک بھی شدید متاثر ہوں گے۔ اس پس منظر کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ کورونا وبا کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایک ملک اپنے لئے حفاظتی اقدامات کر کے اس وباء سے محفوظ رہ سکتا ہے’ مناسب رویہ یہ ہوگا کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوںکو کورونا سے محفوظ بنانے کیساتھ ساتھ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے عوام کو بھی کورونا سے محفوظ بنانے کیلئے سوچیں’ اس لئے بھی کہ اگر انہوں نے ترقی پذیر ممالک کے شہریوںکو محفوظ بنانے کیلئے بروقت اقدامات نہ اُٹھائے تو وہ خود بھی محفوظ نہ رہ سکیں گے’ جس طرح کہ چین سے جب وبا پھوٹی تو دنیا نے اسے اول تو سنجیدہ نہیں لیا اور جب سنجیدہ لیا تو ہر ملک اپنے آپ کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات اُٹھانے لگا۔ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ نے ترقی پذیر ممالک کیساتھ تعاون کیلئے جس رقم کا وعدہ کیا تھا وہ وعدہ ایفا نہیں ہو سکا’ ترقی یافتہ ممالک کو یہ بات بھی سوچنی ہوگی کہ ترقی پذیر ممالک کو ویکسین کی عدم فراہمی ترقی یافتہ ممالک کیلئے بھی مشکلات کا باعث بنے گی’ اگر ترقی یافتہ ممالک غریب اور ترقی پذیر ممالک کو کورونا ویکسین کی مفت فراہمی یقینی نہیں بنا سکتے تو کم ازکم اس کی قیمت اس قدر رعایتی اور کم ہونی چاہئے کہ غریب ممالک کو مزید قرضوں کے بوجھ تلے نہ دبنا پڑے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں