4 296

معاشی عدم مساوات اور عالمی امن کو لاحق خطرہ!

کورونا کی وبا نے جہاں دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو مشکلات اور پریشانیوں کا شکار کیا ہے وہیں یہ بحران امیر ترین افراد کے لیے منافع بخش بھی رہا۔اس وبا نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں نگل لیں اور کروڑوں کو غربت کی جانب دھکیل دیا ہے۔ تاہم گزشتہ ایک سال میں دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس وبا کے آغاز سے ہی دنیا کے غریب افراد مزید غریب اور امیر مزید امیر ہوگئے ہیں۔یہ بات تو ثابت شدہ ہے کہ یہ ہنگامی صورتحال ہر فرد پر یکساں طور سے اثر انداز نہیں ہوئی۔ اس وبا نے ممالک کے مابین اور ممالک کے اندر پہلے سے موجود عدم مساوات میں اضافہ کیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہم سب ایک ہی سمندر میں موجود ہیں۔یہ عمل ناصرف امیر اور غریب ممالک کے درمیان موجود فرق کو مزید وسیع کردے گا بلکہ اس سے عالمی امن کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔گزشتہ ماہ آکسفام نے دی ان ایکویلیٹی وائرس کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی جس میں وبا ء کے دوران معاشی عدم مساوات کے بارے میں کچھ چونکا دینے والے انکشافات کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق جس دوران لاکھوں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو رہے تھے اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے اس دوران امیر ترین افراد اس وبا سے سب سے کم متاثر ہوئے۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ سال 2020 کے دوران دنیا میں غربت کے شکار افراد کی کل تعداد میں20سے50 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف عالمی معیشت میں گراوٹ کے باوجود18مارچ سے31دسمبر2020 کے دوران دنیا کے ارب پتی افراد کی دولت میں تقریباً 4 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔عالمی معاشی فورم کی رپورٹ کے مطابق اسی عرصے کے دوران دنیا کے10امیر ترین ارب پتی افراد کی دولت میں 540 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی مشترکہ دولت تقریبا 12 کھرب ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کی 25 بڑی کمپنیوں نے گزشتہ سالوں کی نسبت 2020 میں11فیصد زیادہ منافع کمایا۔اس عرصے میں امریکا کے معروف ارب پتی اور خلائی ٹیکنالوجی کے حوالے سے مشہور ایلن مسک کی دولت میں تقریباً 129 ارب ڈالر اور ایمازون کے بانی جیف بیزوس کی دولت میں تقریباً78ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن صرف امریکیوں کی دولت میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ مارچ سے اکتوبر 2020 کے دوران بھارت کے امیر ترین شخص مکیش امبانی کی دولت میں بھی تقریباً 79 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارب پتی افراد کی دولت صرف 9ماہ میں ہی کورونا سے پہلے والی سطح پر آگئی ہے لیکن عالمی معیشت کو اس سطح پر واپس جانے میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ لگے گا۔اس وبا نے دنیا میں شدید عدم مساوات کو مزید عیاں کردیا ہے۔ کورونا وائرس سے پہلے ہی دنیا کے اربوں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ بتایا جارہا ہے کہ3 ارب سے زیادہ لوگوں کو صحت کی سہولیات اور تین چوتھائی مزدوروں کو کسی بھی قسم کے سماجی تحفظ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس صورتحال نے انہیں وائرس سے مزید غیر محفوظ بنادیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا موجودہ عالمی نظام امیروں کو ہی فائدہ پہنچاتا ہے اس لیے ایسا ہونا ناممکن تھا۔اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ غربت کا شکار ہونے والے لوگ اگلے10سالوں کے دوران بھی اس صورتحال سے باہر آسکیں گے۔ یہ بہت ہی سنجیدہ صورتحال ہے جس کے سیاسی اور سماجی اثرات ہوں گے۔عدم مساوات کا مطلب ہے کہ زیادہ لوگ بیمار پڑیں گے، کم لوگ تعلیم حاصل کریں گے اور بہت کم لوگ خوشحال زندگی گزاریں گے۔ آمدن میں موجود عدم مساوات سیاست کو آلودہ کرسکتا ہے اور شدت پسندی اور نسلی تعصب کو ہوا دے سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پہلے سے زیادہ افراد ناامیدی اور خوف کا شکار ہوجائیں گے۔اس صورتحال سے ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور ان ممالک میں عدم مساوات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔اگر ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو کئی دہائیوں میں حاصل ہونے والی ترقی ضائع ہوجائے گی اور کروڑوں لوگ دوبارہ غربت کا شکار ہوجائیں گے۔ یو این ڈی پی نے پاکستان سمیت70 ممالک کا جائزہ لیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ اس وائرس کی وجہ سے 40کروڑ سے زائد افراد غربت کا شکار ہوسکتے ہیں۔پاکستان کی معیشت پہلے ہی لڑکھڑا رہی تھی اور ایسی صورتحال میں کورونا وائرس مزید مہلک ثابت ہوگا۔ لاکھوں لوگ پہلے ہی غربت کا شکار ہیں اور نوکریوں میں کمی کی وجہ سے انہیں ایک تاریک مستقبل کا سامنا ہے۔ یوں یہاں سنگین سیاسی اور معاشی نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے، اور یہ صورتحال صرف پاکستان کو ہی درپیش نہیں ہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں