arif bahar 2

افغانستان کا امن ایک گورکھ دھندہ

افغانستان کا امن ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جس کا حصول حد درجہ مشکل اور پیچیدہ ہے۔ امن کی حقیقی منزل تک پہنچنے کیلئے جس تحمل، برداشت، تدبر، وسیع القلبی، بصیرت اور بصارت کی ضرورت ہے بہت سے فریق ابھی اس سے دور نظر آرہے ہیں۔ مستقل عدم تحفظ کا شکار ایک مضبوط طبقے کو غلامی اور اپنے بقا اور بچاؤ کیلئے کمزور سہاروں کی تلاش کی عادت سی ہو گئی ہے۔ برسوں سے جاری بدامنی اور خانہ جنگی میں اس طرح کے روئیے پیدا ہونا فطری ہوتا ہے۔ یہ روئیے حالات کا منطقی نتیجہ اور نفسیاتی عارضوں کی مانند ہوتے ہیں۔ افغانستان میں سوویت کی فوج کی آمد کیلئے جن رویوں نے حالات کو سازگار بنایا تھا وہ اب بھی اس معاشرے میں پوری طرح موجود ہیں۔ غیروں کیساتھ مل بیٹھنا اور اپنوں سے پرے پرے کھسکنا افغان مسئلے کی پیدائش کی وجہ تھا اب اس مسئلے کے پائیدار حل میں یہ رکاوٹ ہے۔ افغان قیادت کے رویوں نے اس کیلئے ملکی حالات کو ایک گورکھ دھندہ بنا دیا ہے۔ ایک طرف دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔ طالبان اور امریکہ جو افغانستان کے عسکری منظرنامے کی دو بنیادی اور توانا حقیقتیں تھیں پہلے جنگ بندی اور بعدازاں فوجی انخلاء کے معاہدہ پر متفق ہوئیں۔ جس وقت دوحہ میں اس تاریخی معاہدے پر دستخط ہو رہے تھے تو عین انہی لمحوں میں افغان صدر اشرف غنی کابل میں نمودار ہو کر اپنے وجود کا احساس دلا رہے تھے۔ وہ بوجھل دل کیساتھ پاکستان کا شکریہ ادا کررہے تھے جو دوحہ مذاکرات اور معاہدے کا اہم تیسرا اہم کردار تھا۔ اشرف غنی کی پریس کانفرنس اس منظر میں صرف ”میں ہوں ناں” کا تاثر دلانے کیلئے توجہ دلاؤ نوٹس تھا۔ انہیں امریکہ کا طالبان ملیشیا کیساتھ اس انداز میں عہد وپیماں ہضم نہیں ہو رہا تھا اور دوسرے ہی دن اشرف غنی کھل کر سامنے آگئے۔ انہوں نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی سے انکار کیا اور ایسے کسی معاہدے کی پاسداری سے انکار کیا۔ ایک دن کے وقفے کے بعد اشرف غنی مزید کھل گئے اور انہوں نے کہا کہ جب تک طالبان خود کو پاکستان سے الگ نہیں کرتے ان سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے طالبان قیادت سے یہ سوال پوچھا کہ وہ کب پاکستان چھوڑ رہے ہیں۔ اشرف غنی کا یہ بیان اس بات کا غماز تھا کہ افغانستان کے منظر اور امن میں ”کیدو” کا کردار ادا کرنیوالے بھارت کو اپنا کام کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اشرف غنی کے بیان سے پیدا ہونے والی بدمزگی کے نتیجے میں طالبان نے افغان فورسز پر حملے کئے اور جواب میں امریکہ نے طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کئے۔ ایک طرف یہ فلم چل رہی تھی تو دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ طالبان راہنما ملاعبدالغنی برادر سے ٹیلی فون پر امن کے نئے عہد وپیماں کر رہے تھے۔ آدھ گھنٹہ ہونے والی اس گفتگو میں دونوں طرف سے افغانستان میں قیام امن پر بات کی گئی۔ ملاعبدالغنی برادر کی طرف سے ٹرمپ کو کہا گیا امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کی مخالفت کرنے والے اسے افغانستان میں پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے یقین دلایا کہ وہ وزیرخارجہ مائیک پومپیو سے کہیں گے کہ افغان حکومت سے طالبان قیدیوں کی رہائی کیلئے بات کریں۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کہ جب امریکہ کے صدر نے اپنی ہی فوج کیخلاف صف آراء ایک ملیشیا کے راہنما سے براہ راست بات چیت کی۔ اس سے امریکہ کی افغانستان کے کانٹوں میں اُلجھا ہوا اپنا دامن چھڑانے کی خواہش کی تڑپتی مچلتی خواہش صاف نظر آرہی ہے اور امریکہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کی راہ میں مزید رکاوٹیں برداشت کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ چند لاکھ ووٹ حاصل کرکے اپنی انتخابی فتح پر اترانے والے اشرف غنی امریکہ کی واپسی اور طالبان سے معاہدے کو بے وفائی جان کر نڈھال ہیں اور شاید اس بے بسی میں وہ بھارت کو اپنی ڈھال اور چھتری کے طور پر نیا امریکہ بنانا چاہتا ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ان کا جھگڑا طالبان سے بھی ہے جو پچاس فیصد سے زیادہ علاقے پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ ان کی کھٹ پھٹ اب امریکیوں سے چل پڑی ہے جو افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ ان کی پاکستان سے بھی مخاصمت ہے جو افغانستان میں امن اور جنگ ہر کھیل کا اہم ترین بیرونی کھلاڑی ہے۔ اب ان کا جھگڑا اپنے ہی نظام کے طاقتور ستون چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بھی چل پڑا ہے جو اپنی ایک متوازی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس بات کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک طرف کابل میں اشرف غنی صدر کے عہدے کا حلف لے رہے ہوں گے تو دوسری طرف مزار شریف میں عبداللہ عبداللہ اسی عہدے کا حلف لے رہے ہوں گے یہ تو ماضی کی کشمکش کی زیادہ خوفناک انداز میں واپسی ہی ہے۔ اشرف غنی کے اقتدار کو تسلیم نہ کرنے والوں میں ماضی کی سفاک گلم جم ملیشیا کے کمانڈر رشید دوستم نمایاں ہیں۔ اشرف غنی آخری چارۂ کار کے طور پر بھارت کے چھتری تلے پناہ لیتے ہیں تو یہ واقعی اس تاریخی موقع کو ضائع کرنے کے مترادف ہوگا جس کی جانب زلمے خلیل زاد نے اشارہ کیا ہے۔ دماغ کو چکرا دینے والی اس صورتحال میں امن کو ترستے ہوئے ایک عام افغان کی مثال ”مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ دشمنوں سے میں خود نمٹ لوں گا” جیسی ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس وقت ان کے لیڈر ہی اس طرح کے دوست کا کردار ادا کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں