2 411

میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں

میں کس کے ہاتھوں میں اپنا لہو تلاش کروں یہ آواز آج ہر اس نوجوان مرد، عورت، معصوم ننھی پریوں، نوجوان لڑکیوں کی ہے جو زیادتی کے بعد بے رحمی سے قتل کر دی گئیں۔ یہ آواز ان نوجوانوں کی ہے جو سر عام پولیس کی دہشت گردی، جعلی پولیس مقابلوں کی بھینٹ چڑھا دیے گئے یا جو پولیس کی نااہلی کے سبب سر عام ایک موبائل فون بچانے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کی گولی کا نشانہ بن کر اپنی قیمتی زندگیاں گنوا بیٹھے، یقینا یہ ان والدین کیلئے عمر بھر کا صدمہ ہے جنہوں نے اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے مٹی تلے دفن کر دیا، جو اب ساری عمر انصاف کی اُمید میں عدالتوں کی خاک چھانتے رہیں گے۔پارلیمنٹ زیادتی کے واقعات کے حوالے سے بل تو منظور کرتی ہے مگر اس پر عملدارآمد نہیں کیا جاتا، ساتھ ہی پولیس اصلاحات پر کوئی آواز بلند نہیں کی جاتی کیوں محکمہ پولیس منشیات کے اڈے، تجاوزات، قبضہ مافیا اور دیگر ناجائز کاموں کیلئے سیاستدانوں کا مضبوط ہتھیار ہے، یہ محکمہ پولیس ہی ہے جس کے ذریعے ناجائز کاموں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت جو احتساب کے نعرے لگا کر اقتدار میں آئی ہے جو پولیس اصلاحات کے بھی دعوے کرتی نظر آئی، مگر افسوس کہ محترم وزیراعظم شاید اپنے ہر وعدے پر یوٹرن لے چکے ہیں۔ کیا وزیر اعظم یہ نہیں جانتے کہ ان کے اقتدار کی شروعات ہی میں سانحہ ساہیوال رونما ہوا جس میں معصوم بے گناہ افراد پولیس کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، جس پر موجودہ حکومت نے انصاف فراہم کرنے اور پولیس اصلاحات کے بلندوبانگ دعوے کیے ایسا محسوس کیا گیا کہ شاید نئے پاکستان میں غریب عوام کو فوری انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی آج ڈھائی سال کے اقتدار میں اس حکومت نے بھی ماضی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے انصاف کو تماشا بنادیا ہے۔ شاید اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا یہ بیانیہ درست ہے کہ اگر مجھ پر ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت ہوجائے تو میں سیاست سے دوری اختیار کر لوںگا۔ شاید شہباز شریف یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ موجودہ حکومت میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ ان پر اربوں کھربوں کی کرپشن ثابت کرسکے۔
موجودہ حکومت کو جن حالات میں اقتدار ملا وہ کوئی خوشحال ترقی یافتہ ملک کی صورت میں نہیں تھا، ایک وزیراعظم کرپشن ناجائز اثاثوں آمدن کے ذرائع نہ بتانے کی وجہ سے نااہل سزا یافتہ قرار دیدیا گیا تھا جس کی وجہ سے ملک سیاسی بحران کی جانب گامزن تھا 2008سے 2018تک ملک بیروزگاری مہنگائی علاج تعلیم انصاف کی بہتر فراہمی سے محروم تھا، کشمیر اس وقت بھی جل رہا تھا جب مولانا کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے، ان ادوار میں ہم نے چین یا جاپان کو معاشی بنیادوں پر شکست نہیں دی تھی، یہ ملک و قوم اس وقت بھی معاشی بحران کی چکی میں پیس رہے تھے۔ سانحہ بلدیہ ٹائون کراچی، سانحہ ماڈل ٹائون لاہور سمیت ننھی پریوں کیساتھ زیادتی، جعلی پولیس مقابلے اور دہشت گردی کے واقعات بھی ان ادوار میں مسلسل رونما ہورہے تھے۔
مگر اس وقت مریم صفدر، بلاول زرداری خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے، ان کی آنکھوں پر اقتدار کا پردہ پڑا ہوا تھا۔ پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں پولیس کراچی کے نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں سر عام قتل کر رہی تھی، ن لیگ کے دور میں کراچی بھر میں ایم کیو ایم کی جگہ پولیس نے لیکر معصوم بے گناہ نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہوا تھا مگر اس وقت کے حکمرانوں کو سب اچھا اچھا محسوس ہورہا تھا۔
مگر آج جب عدالت عظمی سے اپنے آپ کو نااہل سزا یافتہ پایا تو چیخیں نکل گئیں، سابق وزیراعظم سمیت سابق وزیر خزانہ ملک سے فرار اختیار کر گئے جن کو عدالت نے اشتہاری قرار دیدیا ہے اور ان کی سہولت کار سزایافتہ خاتون عوامی اجتماع میں ان کی بے گناہی کا مقدمہ لڑ رہی ہیں۔ اس ملک کا سابق صدر ضمانت پر رہائی حاصل کر کے اپنے صاحبزادے کی قیادت میں جمہو ریت کو ڈی ریل کرنے میں مصروف دکھائی دے رہا ہے ملک کو سود کی لعنت، بے حیائی سے پاک اسلامی شریعت کے نفاذ کی آڑ میں مولانا صاحب ایک خاتون کے فیصلوں کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں۔
ملک میں معاشی بحران ہے، مہنگائی بیروزگاری، پولیس کی دہشت گردی کا خوف لوگوں پر طاری ہے اور اپوزیشن جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی مزموم سازش کی مرتکب ہور ہی ہے، ساتھ ہی موجود ہ حکومت جہاں عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے وہاں احتساب کے غیرجانبدار عمل میں بھی مکمل ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ سیاستدان صبح شام ریاستی اداروں کو دھمکیاں دے رہے ہیں، بیرون ملک عوام کے سامنے ریاستی اداروں کے کردار کو مشکوک ثابت کیا جارہا ہے جس پر حکومت اور ریاستی اداروں کی خاموشی لمحہ فکر ہے اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہم کبھی بھی ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن نہیں ہوسکیں گے۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''