3 315

پاکستان کے تعلیمی ادارے اور سیاست

سیاست کوئی بری چیز نہیں ہے بلکہ انسان کیساتھ اور انسانی معاشروں کیساتھ سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاست کی عام طور پر دو قسمیں ہیں، ایک مغربی یا لادینی سیاست کہلاتی ہے اور ایک اسلامی سیاست جس کا تعلق انبیاء علیہم السلام کیساتھ چلا آرہا تھا اور خاتم النبیینۖ پر مکمل ہوا۔ سیاست کے لغوی اور اصلاحی معنوں میں بہت وسعت ہے، لیکن مختصراً وہ علم وعمل جس کے ذریعے معاشروں کی تنظیم کی جاتی ہے اور ادارے چلائے جاتے ہیں تاکہ بنی نوع انسان کے ضروری مسائل حل ہوسکیں۔
مغرب نے اس لحاظ سے کمال کر دیا کہ جب بادشاہت کو خیبرباد کہتے ہوئے کلیسا (مذہب) کو بھی ملکی اور سیاسی معاملات سے دیس نکالا دیا تو سائنسی ترقی اور علوم وفنون کی بدولت سیکولر نظام حکومت کو جمہوریت کے نام سے ایسا چلایا کہ دنیا بھر میں اس کی دھوم مچ گئی اور اس وقت دنیا کی اکثریتی ملکوں میں یہی نظام حکمرانی رائج ہے اور اسے سیاست کہتے ہیں۔
مشرق وسطی اور پاکستان وترکی وبنگلہ دیش اور دیگر افریقی اسلامی ممالک میں ایک زمانے تک آمریت رہی اور اب بھی زیادہ مسلمان ملکوں میں خیر سے بادشاہ سلامت ہی کے خاندان موج موجیں اُڑانے میں مصروف ہیں لیکن شکر ہے کہ ترکی اور پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں مثالی نہ سہی، انتخابات کی رونقیں بہرحال چار پانچ برسوں بعد دیکھنے کو مل ہی جاتی ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں سیاست کے مثالی بننے اور عوام کی خدمت گزار ہونے میں ابھی ایک زمانہ لگے گا، اس لئے عام طور پر اس سیاست کے بہت بے ڈھنگے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں، مثلاً ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں اور کارخانوں اور ملوں اور دیگر اداروں ازقسم پی آئی اے، پاکستان سٹیل ، پاکستان ریلوے وغیرہ میں ٹریڈ یونین کے نام پر جیالے ان اداروں میں داخل ہوگئے، جس کے نتائج اس وقت پاکستان کے پی آئی اے اور سٹیل اور ریلوے جیسے کماؤ بڑے ادارے اربوں کے خسارے میں رہ کر ملک وقوم کیلئے سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت کی آڑ میں جس جماعت کی حکومت بن جاتی ہے اس کی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ بیوروکریسی سے لیکر منڈی اور بازاروں تک کے یونینز میں ان کے لوگ ہی کرتا دھرتا ہوں، جس کا نتیجہ عموماً یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی سیاست کیخلاف کے لوگوں کی حکومت کے اداروں کو ہر قدم پر ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا ان کیساتھ تعاون نہیں کرتے۔ اسی عمل اور ردعمل سے تنگ آکر اور اس کے نتائج بھگت کر پاکستان کی مین سٹریم کی دو سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت، پر دستخط کئے لیکن درون خانہ اور پس پردہ وہی سیاست جاری رہی جس میں ایک دوسرے کو زچ کیا جاتا ہے۔
اس وقت گزشتہ دس پندرہ برسوں میں ہر شعبہ زندگی میں انہی دو سیاسی جماعتوں کے افراد اہم عہدوں اور یونینز پر فائز ہیں اور موجودہ حکومت جو تیسری قوت کے طور پر اقتدار میں آئی ہے، سخت مزاحمت سے دوچار ہے اور کچھ نہ ڈیلیور کرنے میں ایک حصہ اسی سیاست کا ہے۔
سیاست کے اسی رخ اور معانی نے وطن عزیز کے معاملات اور عوام کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے ہیں اور اس کے سنورنے میں شاید اب بھی زمانے لگے لیکن ہمارے ہاں سیاست کے سب سے مضمر اثرات ہمارے تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات پر پڑے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی تعیناتی میں گزشتہ دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے دوراقتدار میں چھان بین کرکے ہی لوگ تعینات کئے۔ جنہوں نے اپنے اپنے ٹینور میں وہی کیا جو ان کو بتایا گیا تھا۔ ان وائس چانسلروں نے جامعات میں اپنی سیاسی وابستگی کو ہر کام میں مرجع رکھا۔
پچھلے دنوں گورنر پختونخوا نے جو جامعات کے چانسلر بھی ہوتے ہیں، وائس چانسلروں کو ہدایت کی ہے کہ سیاسی شخصیات سے میل جول اور ملاقات وغیرہ سے گریز کریں اور اپنے دامن کو سیاسی آلودگیوں سے پاک رکھیں۔ گورنر صاحب شاید تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے تھے ورنہ کس کو نہیں معلوم کہ فلاں وائس چانسلر صاحب کا تعلق کس جماعت، کن نظریات اور کس گروپ کیساتھ ہے۔ سیاسی فکر نظر رکھنا کسی بھی لحاظ سے نہ معیوب ہے اور نہ ممنوع، مسئلہ صرف اتنا ہے کہ کوئی اپنے نظریات چھوڑے نہیں، کسی دوسرے کی چھیڑے نہیں اور ادارتی امور میں خوف خدا کے پیش نظر عدل واعتدال سے کام لیا کرے اور ادارے کے مفادات اور ترقی کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھے۔
سیاست چلتی رہی ہے، چلتی رہے گی کیونکہ جمہوری حکومتیں سیاست ہی کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں۔ پرائم منسٹر وزرائے اعلیٰ سے لیکر وزراء اور میشران تک سب کے تعلیمی اداروں میں طلبہ ونگز کیساتھ ساتھ اساتذہ ونگز بھی ہوتے ہیں اور وائس چانسلر اساتذہ کے کسی نہ کسی گروپ کیساتھ وابستہ ہوتے ہیں بلکہ بعض اساتذہ گروپوں کے درمیان محصور سے رہ جاتے ہیں۔ جو یقینا مجبوری کیساتھ ساتھ سیاست کے مطالبے اور تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ اگر ان اداروں کو ان چیزوں سے پاک کرنے کے کسی نے ٹھوس اقدامات کئے تو یقینا قابل تعریف ہوں گے۔ لیکن لگتا ذرا مشکل ہے۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان