2 65

وزیراعظم کا وزراء کو انتباہ!

وزیراعظم عمران خان نے بعض وزراء کے طرزعمل پر انہیں وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے وزراء بھی ہیں جو دفتر میںڈیوٹی اور فرائض انجام دینے کی بجائے اسلام آباد کی معروف مارکیٹ میں بیٹھتے ہیں’ وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن اگر کچھ نہ بھی کرے تو کوئی وزیر ایسا بیان دے دیتا ہے جس کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپنی ٹیم کے اہم اراکین کو وارننگ جاری کرنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ اپنے وزراء کی سرگرمیوں سے مکمل طور پر آگاہ ہیں بطور وزیراعظم انہیں وزراء کی سرگرمیوں سے متعلق آگاہ ہونا بھی چاہئے ‘ وزیراعظم عمران خان نے اپنے وزراء کو بہت ہی مثبت انداز میں پیغام پہنچایا ہے کہ وہ اپنے دفاتر میں بیٹھ کر فرائض انجام دیں’ تاہم عوامی نمائندوںکے کندھوں پر جس قدر بھاری ذمہ داریاںعائد ہوتی ہیں اس کا تقاضا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ایسے وزراء کا نام لیتے اور ان کیخلاف بھرپور تادیبی کارروائی بھی عمل میںلائی جاتی تاکہ آئندہ کوئی بھی وزیر عوامی خدمت سے پہلو تہی نہ برتتا’ وزیراعظم عمران خان کا وزراء سے متعلق دھیمہ انداز اس بات پر دلالت کر تا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے سخت مزاج کے برعکس نہایت صبر وتحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں تاکہ وقت کیساتھ ساتھ معاملات درستگی کی طرف آجائیں لیکن اس کیساتھ ساتھ وزراء کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ انہوں نے عوامی خدمت کا جو حلف اُٹھایا ہے اس کی انجام دہی سے غفلت نہ برتیں ‘ وزراء کے پیش نظر یہ امر بھی ہونا چاہیے کہ جب تک پوری ٹیم یکسوئی اور لگن کیساتھ کام نہیں کرتی تنہا وزیراعظم کیلئے چیلنجز پر قابو پانا اور ملک کو مسائل کے گرداب سے باہر نکالنا مشکل ہو گا۔ وزراء کے عہدے بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ وہ اپنے دفاتر میں موجود رہیں اور ملک بھر سے آنے والے سائلین کے مسائل کو حل کریں۔
ضم شدہ قبائلی اضلاع کی محرومیاں
دوسال قبل خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع کو صوبے میں اسلئے ضم کیا گیا تھا تاکہ قبائلی اضلاع کی پسماندگی دور ہو سکیں کیونکہ قبائلی اضلاع کو وسائل کی کمی کا سامنا تھا اور قبائل میں رائج ایف سی آر قانون کا خاتمہ بھی اس انضمام کی ایک اہم وجہ تھی’ اس انضمام کیلئے برسوں تک تحریک چلی’ صوبائی اور وفاقی سطح پر بحث و مباحثہ ہوا’ اس بحث کا سب سے اہم سوال یہ تھا کہ قبائلی اضلاع کی پسماندگی کیسے دور کی جائے گی؟ارباب حل وعقد کی طرف سے اس کا جواب یہ پیش کیا گیا کہ دیگر تینوںصوبے وفاق کو نیشنل فنانس کمیشن کی مد میں خیبرپختونخوا کو اضافی فنڈ دیں گے جو ضم شدہ اضلاع کی تعمیر وترقی پر خرچ ہوں گے لیکن اب انضمام کو دو سال کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن قبائلی اضلاع کی محرومیاں دور نہیںہو سکی ہیں’ قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو کا کہنا ہے کہ حکومت نے ابھی تک ضم شدہ اضلاع کی ترقی کیلئے اعلان شدہ فنڈز جاری نہیںکیے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں انضمام کے حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے۔ ضم شدہ اضلاع کی تعمیر وترقی کیلئے خیبرپختونخوا وفاق کی جانب دیکھ رہا ہے ‘ عجیب بات یہ ہے کہ صوبے اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن اس ہم آہنگی کے باوجود وفاق کی جانب سے ضم شدہ اضلاع کی تعمیر وترقی کیلئے فنڈز جاری نہیں کیے جا رہے ‘ اگر قبائلی اضلاع کیلئے وفاق کی جانب سے فنڈز جاری نہ کئے گئے تو وقت گزرنے کیساتھ ساتھ قبائلی اضلاع کے عوام میں احساس محرومی جنم لے سکتا ہے’ اسلئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر ضم شدہ اضلاع کیلئے مختص فنڈز جاری کرے تاکہ قبائلی اضلاع کے عوام بھی ملک کے دیگر شہریوں کی طرح بنیادی ضروریات زندگی سے مستفید ہو سکیں۔
رشکئی صنعتی زون اور ترقی کی نئی راہیں
صوبائی حکام کے مطابق رشکئی اکنامک زون کا افتتاح اپریل میں ہونے کی توقع ہے’ رشکئی صنعتی زون میں 4ارب روپے کی سرمایہ کاری ہو گی جس سے 2 لاکھ افراد کو روزگار ملنے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔ خیال رہے رشکئی صنعتی زون سی پیک کا حصہ ہے ‘ سی پیک کی تکمیل کے بعد تمام صنعتی زونز فعال ہو جائیں گے ‘ ان صنعتی زونز سے نہ صرف تجارت کو فروغ ملے گا بلکہ مقامی لوگوں کو بڑے پیمانے پر روزگار بھی ملے گا۔ جو لوگ روز گار کی تلاش میں اپنے علاقے اور گھر والوں سے دور رہنے پر مجبور تھے صنعتی زونز کے فعال ہو جانے کے بعد انہیں اپنے علاقے میں روزگار ملے گا اور سی پیک کی بدولت وسیع پیمانے پر سرمایہ کی گردش ہو گی جس میں مقامی طور پر تیار ہونے والی اشیاء ملک کے طول وعرض میں پھیلنے کے علاوہ چین اور دیگر کئی ایک ممالک تک جانے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔اب جبکہ اپریل میں رشکئی صنعتی زون کے افتتاح کی توقع ہے تواس ضمن میں ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر کاروباری طبقہ کو بین الاقوامی لین دین کے اصول و ضوابط بتائے جائیں کیونکہ صنعتی زون میں سارے مزدور ہی نہیں ہوں گے ‘ رشکئی صنعتی زون میں جو کارخانے اور فیکٹریاں بنیں گی ان کا معیار بین الاقوامی ہونا چاہیے ‘ کاروبار میں شفافیت بھی لازم ہے۔ اگر ہمارے تاجروں کی درست رہنمائی نہ کی گئی تو بین الاقوامی سطح پر اپنی پراڈکٹس پہنچانے کے بجائے ہمارے تاجر حضرات ملکی سطح تک ہی محدود ہو کر رہ جائیں گے ‘ہمیں مزدوری سے بلند ہو کر تجارت کی سطح پر بھی سوچنا ہو گا اور اس کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی بھی کرنی ہو گی۔یاد رکھیں اگر ہم نے اس کی پیشگی منصوبہ بندی نہ کی تو سی پیک کے صنعتی زونز کا ہمیں خاطرخواہ فائدہ نہ ہو گا اور ایک مزدور کے طور پر بوجھ اُٹھانے کے علاوہ ہماری کوئی حیثیت نہ ہو گی۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب