3 33

اندھوں نے مل کے شور مچایا ہے چار سو

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے لندن سے ہانک لگائی ہے کہ حکومت عوام کو لوٹ رہی ہے۔ ان کااشارہ چینی آٹے کے حالیہ بحران کی جانب ہے۔ اگرچہ اب وزیراعظم عمران خان نے بھی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے چینی اور آٹے بحران کے ذمہ داروں کو نہ صرف بے نقاب کرنے کا عندیہ دیا ہے بلکہ ان کیخلاف سخت ایکشن لینے کی بات بھی کی ہے’ کیونکہ ذمہ دار اداروں نے انہیں جو رپورٹیں دی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ بحران حقیقی نہیں تھا بلکہ پیدا کیا گیا تھا’ تاہم ذمہ داروں کو کب بے نقاب کیا جائے گا اس حوالے سے عوام انتظار کریں بشرطیکہ اس بیانئے پر ابائوٹ ٹرن یعنی یوٹرن نہ لیا گیا۔ ویسے اپوزیشن لیڈر بھی بخوبی جانتے ہیں کہ یہ لوٹ مار آج سے نہیں بلکہ گزشتہ 70سال سے یونہی جاری ہے اور اب چند روز پہلے ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ عوام کو سستی چینی اور سستاآٹا فراہم کرنے کیلئے راشن کارڈز کا اجراء کیا جاسکتا ہے۔ اب اس خبر میں کہاں تک صداقت ہے یا پھر یہ بھی ایک فلر کے طور پر عوام کا ردعمل جاننے کیلئے جاری کیاگیا تھا جبکہ اس خبر نے ہمیں اس دور میں پہنچا دیا ہے جب ہم اپنے لڑکپن میں اسی راشن کارڈ سسٹم کے تحت آٹا اور چینی گھر سے کچھ فاصلے پر موجود راشن ڈپو سے خرید کر لایا کرتے تھے اور اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ راشن بندی کا نظام دوسری جنگ عظیم سے انگریزوں نے لاگو کر رکھا تھا کیونکہ لام بندی کیساتھ راشن بندی بھی لازم وملزوم ہوگئی تھی۔ اس دور میں چونکہ ہمارے صوبے میں کانگریس کی حکومت تھی اس لئے یہ راشن ڈپو عموماً کانگریس سے تعلق رکھنے والوں کے پاس تھے مگر جیسے ہی برصغیر تقسیم ہوا اور صوبے میں خان قیوم برسراقتدار آئے تو کانگریس کیساتھ تعلق رکھنے والوں کے نام پر رجسٹرڈ راشن ڈپوئوں کی رجسٹریشن منسوخ کرکے مسلم لیگ کے لوگوں کو دے دئیے گئے اور ہم نے پھر یہ تماشا بھی دیکھا کہ لیگی مالکان ڈپو نے جعلی راشن کارڈز بنوا کر چینی کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک میں فروخت کو وتیرہ بنا لیا۔ یوں اضافی چینی عام دکانداروں پر مہنگے داموں فروخت کرنے کا دھندہ عروج پرپہنچ گیا تھا۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہا’ یہاں تک کہ ایوبی آمریت میں صورتحال خاصی دگرگوں ہوگئی تھی۔ اس دور کی تصویر حبیب جالب کے اشعار میں واضح ہو کر یوں سامنے آتی ہے
بیس روپیہ من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر’سہگل’ آدم جی
بنے ہیں برلا اور ٹاٹا
یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے بڑے صنعتکاروں سہگل اور آدم جی کی صف میں خود ایوب خان کے صاحبزادوں (گوہر ایوب’ طاہرایوب’ شوکت ایوب) نے بھی صنعتکار بن کر شمولیت اختیار کی تھی اور بھارت کے بڑے صنعتکار خاندان برلا اور ٹاٹا کی طرح دولت اکٹھی کر رہے تھے۔ اس زمانے میں ایوب حکومت کے زیراثر چینی چوروں کے ایک ٹولے نے چینی کا بحران پیدا کردیا تھا اور صرف چار آنے سیر قیمت بڑھا کر عوام کو مہنگائی کیخلاف سڑکوں پر آنے اور ایوبی آمریت کا تختہ اُلٹنے کا راستہ دکھا دیا تھا۔ اب جو تازہ صورتحال سامنے آئی ہے اس پر پہلے ایک شعر ملاحظہ کیجئے کہ
ہمیں بھی آپ سے اک بات عرض کرنا ہے
پر اپنی جان کی پہلے امان مانگتے ہیں
میڈیا پر موجودہ آٹے چینی بحرانوں کے حوالے سے جو خبریں چل رہی ہیں ان میں بعض ایسے افراد کے نام بھی سامنے آرہے ہیں جن میں خود وزیراعظم کے ارد گرد افراد کی جانب اُنگلیاں اُٹھائی جا رہی ہیں’ حالانکہ وزیراعظم نے بہت سخت لہجے میں تمام ذمہ داروں کیخلاف اقدامات کی بات کی ہے مگر جس طرح مالم جبہ کے مبینہ سیکنڈل’ بی آر ٹی کے حوالے سے عدالتی احکامات کے ذریعے انکوائری رکوانے اور مزید کچھ منصوبوں پر اُٹھنے والے سوالات سے جان چھڑانے کی کوششیں کی گئیں۔ خدشہ ہے کہ آٹے اور چینی بحرانوں کے ذمہ دار بھی بالآخر بچ جائیں گے یعنی اس پر بھی ایک یوٹرن لینے کے حوالے سے بعض حلقے خدشات کااظہار کر رہے ہیں اسلئے قائد حزب اختلاف لندن میں بیٹھ کر شور وغوغا کرنے کی بجائے اگر خود وطن واپس تشریف لاکر قومی اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرنے کی زحمت گوارا کریں تو ممکن ہے حکومت کو یوٹرن لینے سے روکا جاسکے۔ موجودہ صورتحال تو بالکل اس شعر کی مانند دکھائی دیتی ہے کہ
اندھوں نے مل کے شور مچایا ہے چار سو
تاکہ سن سکے نہ کوئی دیدہ ور کی بات
ویسے جس خبر کا حوالہ اوپر کی سطور میں دے کر یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ملک میں ایک بار پھر ممکنہ طورپر راشن بندی کی بات کی گئی ہے۔ اگر یہ واقعی کسی کے ذہن کی محض اختراع نہیں ہے بلکہ حقیقی طور پر اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو پھر یہ بات لکھ لیں کہ آئندہ چند ماہ کے دوران حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بہت سے بیروزگاروں کو راشن ڈپوئوں کے لائسنس جاری کرکے روزگار کے مواقع فراہم کئے جاسکتے ہیں اور یوں مبینہ طور پر لوٹ مار کا پرانا نظام دوبارہ مسلط کیاجاسکتا ہے تاہم حقیقت کیا ہے واللہ اعلم بالصواب!
حضور’ محترم’ عزت مآب’ عالی جناب
یہ سارا جھوٹ ہے’ ایسا نہیں کہا میں نے

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟