4 31

کیا غم ہے جو دشوار ہوا جاتا ہے جینا

ہم سب اچھے حکمران چاہتے ہیں، ایسی حکومت ہو غریبوں کا خیال رکھے، ذخیرہ اندوزوں کو سزا دے، مہنگائی کے عفریت کو قابو میں رکھنا جانتی ہو، معاشرے میں امن وامان قائم کر سکے، لوگوں کے جان ومال کی حفاظت اس کی پہلی ترجیح ہو، ادارے با اختیار ہوں، قانون کا بول بالا ہو، کسی بھی ادارے کو من مانی کی اجازت نہ ہو، سب اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں! یہ اور اس طرح کی دوسری بہت سی خواہشات ہیں جبکہ موجودہ صورتحال کچھ اس قسم کی ہے:
کیا غم ہے جو دشوار ہوا جاتا ہے جینا
کیا کم ہے کہ اب مرنے میں آسانی بہت ہے
دراصل اوپر بیان کی گئی خواہشات کا تعلق یقینا ایک اچھی حکومت سے ہوتا ہے، اچھی حکومت وہی ہوتی ہے جو فن حکمرانی سے مکمل طور پر آشنا ہو، آج کل حکمرانی کے فن کیلئے گڈگورننس کا لفظ بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ آئیں ایک نظر اس پر بھی ڈال لیتے ہیں کہ گڈگورننس سے کیا مراد ہے؟ ایک مؤثر اور ذمہ دار حکومت جو ہر قسم کے حالات میں بڑی عمدگی کیساتھ مسائل کا حل نکال سکتی ہو جسے عوام کے مسائل سے نہ صرف ہمدردی ہو بلکہ ان کا تدارک بھی کرسکتی ہو! معاشرے کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے اچھے فیصلے کرنا جانتی ہو! دراصل یہ ایک رویہ ہے ایک ایسا نظام بنانے کی کوشش ہے جس میں انصاف اور امن اولین ترجیحات میں شامل ہوں۔ ایک ایسا نظام جو فرد واحد کے حقوق کی پاسداری ممکن بناتا ہو اور عوام کے شہری حقوق کی ضمانت بھی دیتا ہو! اس حوالے سے جہاں تک سیاستدانوں کا تعلق ہے تو ہر کوئی اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے، سب عوام کی محبت کا دم بھرتے ہیں سب کا یہی کہنا ہے کہ وہ وطن عزیز کی بہتری کیلئے کام کر رہے ہیں، ٹی وی کے ٹاک شوز میں ان کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جسے دیکھئے دل وجاں کی توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے چیخ رہا ہوتا ہے اس کا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ ہماری پارٹی صحیح سمت رواں دواں ہے، ہم محب وطن ہیں، ہم گڈ گورننس کے تقاضے نباہنا جانتے ہیں۔ جنہیں ڈاکو اور لٹیرے کا خطاب دیا جاتا ہے ان کے بھی اپنے دلائل ہوتے ہیں اگر سچ معلوم بھی ہو تو اسے ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ عوام کے سامنے سیاستدانوں کی ایک لمبی قطار ہے یہ اچھے ہیں یا برے عوام نے انتخابات میں ان کا چناؤ کرنا ہوتا ہے، اس کے علاوہ عوام اورکر بھی کیا سکتے ہیں؟ وہ اپنا امیدوار تو الیکشن میں کھڑا نہیں کرسکتے اپنے سامنے موجود اُمیدواروں میں سے انہوں نے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اگر آج جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے تو قصور کس کا ہے؟ کسی ایک کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا حمام میں سارے ننگے ہیں، سب کا اپنا اپنا سچ ہے، دوسرے کا کہا ہوا سب کو جھوٹ نظر آتا ہے! ہمارے یہاں اسی قسم کی جمہوریت رائج ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک یہی ہوتا چلا آرہا ہے، یہ سب کچھ اس نام نہاد جمہوریت کی دین ہے جس کی تعریف رات دن کی جاتی ہے! ہم حالت جنگ میں ہیں، دشمن ہم پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا مگر کسی کو ہوش نہیں ہے سب کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں سب کے اپنے اپنے مسائل ہیں، ہم انہی بحث مباحثوں میں اُلجھے رہتے ہیں اور دشمن ہم پر کاری وار کرجاتا ہے، اب تک ہزاروں جانیں ضائع ہوچکی ہیں! وطن عزیز کے مسائل ان گنت ہیں، اقوام عالم کی کہکشاں میں ہر قوم کی یہی خواہش رہی ہے کہ وہ زندگی کی دوڑ میں سب سے آگے رہے۔ اس کی معیشت مضبوط ہو وہ کسی کی دست نگر بن کر نہ رہے، جب ہم اس تناظر میں وطن عزیز کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمارا پیارا وطن بیرونی مسائل سے زیادہ اندرونی مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔ آج جو کچھ ہورہا ہے یہ نیا نہیں ہے ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے، سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیوں سے وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے! یونان کے مشہور فلسفی ارسطو نے جمہوریت کے حوالے سے کہا تھا ”جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں اختیار بڑے معمولی لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی کوئی جائیداد نہیں ہوتی” اس تعریف کی روشنی میں مادر وطن کے سیاستدانوں پر نظر ڈالیں تو سب اربوں روپوں کی جائیداد کے مالک ہیں جن کے اثاثے غیرملکی بنکوں میں پڑے ہوئے ہیں! ارسطو کی اس حوصلہ شکن قسم کی تعریف نے تو ہماری ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے جو ہم جمہوریت سے وابستہ کئے بیٹھے تھے! ارسطو نے اگر معمولی لوگوں کو صاحب اختیار بنانے کی بات کی ہے تو شاید اسی لئے کہ یہی لوگ اپنے جیسے لوگوں کے مسائل اور ان کی پریشانیوں کا ادراک کرسکتے ہیں اور ان کی ہمدردیاں بھی اپنے جیسے غریب عوام کیساتھ ہوتی ہیں جبکہ ہمارے یہاں صورتحال کچھ اس قسم کی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے سرکاری باورچی خانوں میں جو کھانے تیار کئے جاتے ہیں ان پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے رہے ہیں اور اب بھی وہی صورتحال ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہیں غریب آدمی کی حالت زار کا کوئی احساس نہیں ہے اسی لئے سرکاری خزانے پر پڑنے والے بوجھ کے حوالے سے کوئی نہیں سوچتا! ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ ان سب مسائل کا حل ایک صاف شفاف جمہوری نظام میں پوشیدہ ہے! مشہور دانشور الفریڈ سمتھ کا کہنا ہے کہ ”جمہوریت کی تمام خرابیوں کا علاج مزید جمہوریت میں ہے” یوں کہئے ہم نے وطن عزیز کی وائرس زدہ جمہوریت کیساتھ ڈنکے کی چوٹ پر چمٹے رہنا ہے اُمید رکھنی چاہئے کہ جمہوریت کا پودا پھلتا پھولتا رہا توگڈگورننس بھی دیکھنے میں آئے گی اور غریب کے حالات بھی بہتر ہوں گے!

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی