1 394

پاک سعودی تعلقات کا مدوجزر

پاکستان اور سعودی عرب جب تک باہمی تعلقات کو ایک دوسرے کے زاویے سے دیکھتے رہے زمانے کے ہر سرد وگرم کے باوجود مثالی اور دوستانہ رہے۔ جب تاریخ میں پہلی بار سعودی عرب میں فیصلہ سازی پر حاوی ہونے والی قیادت نے ان تعلقات کو دائیں بائیں کے ملکوں کے زاویے سے دیکھنا شروع کیا تو تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے، حد تو یہ کہ تعلقات ملمع کاری کی ضرورت سے بھی آزاد ہوگئے اور دونوں طرف سے یہ تاثر دیا جانے لگا کہ ربط وتعلق میں پہلے جیسی گرم جوشی تو درکنار بہتری کی گنجائش بھی نہیں رہی۔ ملائیشیا کانفرنس کے موقع پر تعلقات کا رہا سہا میک اپ بھی دُھل کر رہ گیا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان پر دباؤ ڈال کر ملائیشیا کانفرنس سے دور رکھا تو عمران خان نے اس دباؤ کی ساری کہانی رجب طیب اردوان کو سنا دی اور طیب اردوان نے صاف لفظوں میں کہا کہ پاکستان معاشی مجبوری اور سعودی دباؤ کی وجہ سے ملائیشیا کانفرنس میں شریک نہ ہوسکا۔ پاکستان ملائیشیا کانفرنس میں شریک تو نہ ہوا مگر اس سے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں بگاڑ کا سفر نہ رک سکا۔ یہاں تک کہ سعودی عرب نے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے کیلئے اُدھار دئیے گئے تین ملین ڈالرز کی رقم کی واپسی کا تقاضا کر دیا۔ اس مشکل مرحلے پر چین پاکستان کی مدد کو آیا اور پاکستان نے اس رقم کی دو اقساط ادا کردیں، اب صرف ایک قسط ادا کرنا باقی ہے۔ پاکستان نے کشمیر پر او آئی سی کی غیرفعالیت کو ایک خاص مدت تک برداشت کر لیا مگر جب او آئی سی سارک کے انجام سے دوچار ہونے کے قریب پہنچی تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سخت لفظوں میں او آئی سی کی غیرفعالیت اور سکوت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور متبادل راستوں کی تلاش اور فورم کی تشکیل کا دوٹوک اعلان کیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بگاڑ کا سلسلہ امریکی انتخابی نتائج تک یونہی جاری رہا۔ امریکہ میں ٹرمپ بے آبرو ہو کر کوچۂ اقتدار سے نکل گئے تو سعودی عرب کیلئے خطرے کی پہلی گھنٹی بج اُٹھی، جوبائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ کی تمام پالیسیوں کو ریورس کرنے اور نظرثانی کا اعلان کیا تھا اور اس کی زد امریکہ سعودی عرب تعلقات پر بھی پڑی۔ جوبائیڈن نے پہلے ہی ایران پالیسی پر نظرثانی کا عندیہ دیا تھا اور اسی میں نیوکلیئر معاہدے کی بحالی کا اشارہ بھی پنہاں تھا۔ انہوں نے یمن جنگ سے لاتعلقی اختیار کرنے اور سعودی عرب کو ہتھیاروں کی بندش کا اعلان بھی کیا۔ امریکہ نے وہی پالیسی اپنائی جو پاکستان نے 2016 میں یمن جنگ کے آغاز میں اپنائی تھی۔ پاکستان نے اس جنگ میں فریق اور شریک نہ بننے جبکہ سعودی عرب کی داخلی سلامتی کیلئے ہر قسم کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔ پاک سعودی تعلقات کی دیوار میں پہلی دراڑ اسی وقت اُبھری تھی۔ پاکستان نے عالمی منظر کی تشکیل جدید میں کافی پہلے ہی اپنے مقام کا تعین کر لیا تھا۔ نوے کی دہائی میں ہی یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ امریکہ خطے میں چین کا گھیراؤ کرنے کیلئے بھارت کو علاقے کا پولیس مین بنانے کا خواہش مند ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے ناقابل قبول تھی اور امریکہ کے زیراثر ہونے کے باوجود پاکستان نے اس پھندے اور دام سے نکلنے کی کوششیں شروع کر رکھی تھیں۔ پاکستان نے اپنے لئے چین کیساتھ دوستی کا انتخاب کیا تھا۔ محمد بن سلمان نے اب اس مرحلے پر پاکستان کو گھسیٹ کر امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے کیمپ میں واپس لانے کی بے مقصد اور لاحاصل کوشش کی۔ اس کوشش نے پاکستان اور سعودی تعلقات کی خرابی کو بڑھا دیا۔ امریکہ کی بے اعتنائی کے بعد سعودی عرب نے دوبارہ چین کی طرف دیکھنا شروع کیا ہے اور چین کیساتھ تعلق کا راستہ پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس حقیقت کا اندازہ ہوتے ہی سعودی عرب نے پاکستان کیساتھ تعلقات کو بہتر بنانا شروع کیا ہے۔ سعودی عرب اب امریکہ کیلئے ماضی کی طرح اہم نہیں رہا۔ اب سعودی عرب تیل کے سب سے بڑے برآمد کنندہ کی حیثیت سے محروم ہوچکا ہے کیونکہ اب عالمی سطح پر امریکہ اور روس تیل کی پیداوار کے سب سے بڑے مراکز ہیں۔ امریکہ کا تیل کیلئے سعودی عرب پر انحصار ختم ہو چکا ہے، اس کے برعکس چین کو تیل کی ضرورت ہے اور خلیجی ممالک سے ہی یہ ضرورت پوری کرنا چاہتا ہے۔ چین ایران سے رعایتی نرخوں پر تیل خرید رہا ہے اور اس میدان میں سعودی عرب کیلئے بھی جگہ موجود ہے اور چین یہ جگہ پُر کرنے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ چھ فروری کو متحدہ عرب امارات کے شیخ محمد بن زید النہیان کا عمران خان کو ٹیلی فون تعلقات کی بحالی کی خواہش کا آئینہ دار تھا۔ سعودی عرب نے ادھار تیل کی سہولت ختم نہ کرنے بلکہ قرض کی آخری قسط واپس لینے کا تقاضا بھی ترک کر دیا ہے۔ بظاہر لگتا تو یہ ہے کہ سعودی عرب بھی بائیڈن انتظامیہ کا رویہ تبدیل ہونے کے بعد اپنا کیمپ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چین کے کیمپ میں جانے کیلئے پاکستان کا ساتھ ناگزیر ہے۔ یہ حالات سے حاصل ہونے والا سبق بھی ہو سکتا ہے مگر یہ امریکی حکام کے سامنے اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب اب اسرائیل اور بھارت کے جس قدر قریب چلا گیا ہے وہاں سے واپسی ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟