p613 268

طویلے کی بلا بندرکے سر

عام انتخابات میں دھاندلی نتائج کی تبدیلی اور الیکشن کمیشن کے کردار کے علاوہ غیر متعلقہ اداروں کے کردار پر اعتراجات اور انتخابی نتائج کو دھاندلی زدہ قرار دے کر حکومت یا پھر وزیراعظم عمران کان کے خلاف حزب اختلاف کی جو مشترکہ جدوجہد شروع ہوئی اسی دورانیہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن ہی کو ناکام قرار دے کر دھاندلی کا الزام لگانے کا رویہ سمجھ سے بالا تر امر ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف ہو یا جے یو آئی یا پھر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی جہاں جس جماعت کے امیدوار کو کامیابی ملی ہے وہاں اس کے نزدیک الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں یا نہ کیں مگر وہ اس پر مطمئین ہیں اس لئے کہ ان کے امیدوار کی کامیابی ہوئی ہے جہاں جو جماعت ہاری ہے وہاں دھاندلی ہوئی ہے ڈسکہ میں توحد ہی ہوگئی نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں گھپلا کا واویلا ہورہا ہے نوشہرہ میں مسلم لیگ(ن)پر الزام لگ رہا ہے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کے عملے کی مدد سے نتائج چوری کئے دیگر نشستوں پر انتخاب بارے بھی کم وبیش اسی قسم کے الزامات ہیں غرض کوئی بھی ہاری ہوئی نشست میں اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ایسے میں الیشکن کمیشن ہی کٹہرے میں کھڑا نظر آتا ہے لیکن بیچارگی کا یہ عالم ہے کہ پولنگ سٹیشن پر ہلہ بول دیا جائے اور پریذائیڈنگ افسران کو اغواء کر لیا جائے پولنگ بیگز غائب کر دیئے جائیں اور الیکشن کمیشن کے سربراہ انتظامیہ کی دہائی دیتے رہ جائیں تو اس میں الیکشن کمیشن کا کیا قصور ہوا۔الیکشن کمیشن کے پاس نہ تو مستقل عملہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے پاس فورس ہوتی ہے الیکشن کے دن اگر ضلعی انتظامیہ کو الیکشن کمیشن کا ماتحت کردیا جائے پولیس فورس کی کمان الیکشن کمیشن کو دی جائے بلکہ الیکشن کمیشن کی مدد اور اس کے احکامات کی پابندی کرنے والی کوئی فورس رینجرز،فرانٹئیر کانسٹبلری جیسی کوئی قوت نافذہ والی نظم اس کے ماتحت کردی جائے تو الیکشن کمیش اپنے عملے کا بھی تحظ کر سکے گا اور مداخلت کاروں کو روکا بھی جاسکے گا فوج تعینات ہوتی ہے تو اس پر بھی سیاستدانوں کو اعتراض ہوتا ہے مشکل امر یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت الیکشن کو شفاف بنانے اور الیکشن کمیشن کے عملے سے تعاون پر تیار نہیں ہوتی سیاسی جماعتیں چاہیں تو کسی طاقت اور قوت نافذہ کی ضرورت نہیں رکاوٹیں ڈالنے حربہ استعمال کرنے اور قانون سے کھلواڑ اور مداخلت وغنڈہ گردی کھلے عام کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کو کٹہرے میں کھڑا اس لئے کیا جاتا ہے کہ ایک آئینی ادارہ ہونے کے باوجود وہ اپنے خلاف پراپیگنڈے کا اسی طرح جواب نہیں دے سکتا جس طرح انگلیاں ان کے خلاف اٹھتی ہیں حکومتی امیدواروں کی کامیابی کیلئے سرکاری مشینری کے غلط استعمال کی ہر دور حکومت میں شکایت رہتی ہے لیکن جہاں حکومتی مشیرنی پر کنٹرول ہوتے ہوئے بھی الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام لگے تو اس انوکھے پن پر کیا کیا جائے سوائے اس کے کہ جب معاملات عدالت میںجائیں گے اورتحقیقات ہوں گی اس کے بعد جو فیصلہ آئے وہی درست مانا جائے گا۔ملک میں شفاف وغیر جانبدارنہ انتخابات مطلوب ہیں تو الیکشن کمیشن کو مکمکل خود مختار بااختیار اور انتخابات کے دنوں میں انتظامیہ کا مکمل کنٹرول بھی انہی کے حوالے کرنا ہوگا ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو ضابطہ اخلاق کی کھلے عام خلاف ورزی اور دھاندلی کی کوششیں چھوڑ کر تعاون کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور بلاوجہ انتخابی نتائج کو متنازعہ قرار دینے اور الزام تراشی سے گریز کرنا ہوگا تب جا کر ہی انتخابی نتائج اور کسی جماعت کی کامیابی کی وقعت ہوگی اس کے بعد ہی اقتدار بھی باوقعت ہوگا۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات