3 325

قدم قدم پہ نئی داستاںسناتے لوگ

جھرلو کی سیاست کاآغاز ویسے تو قیام پاکستان کے بعد ہی ہماری قومی زندگی میں ہوچکا تھا اور ہر دور میں نت نئے طریقے آزمائے جاتے رہے ہیں مگر دھند آلود جھرلو کی یہ نئی قسم ایجاد ہوئی اس کے پیچھے بقول شخصے دھند آلود ضمیروں کا کردار بڑا اہم ہے جو اس سے پہلے نہ دیکھا نہ سنا نہ پڑھا تھا ہمارے ایک مرحوم استاد جو کالج میں ہمیں انگریزی پڑھا یا کرتے تھے پشاور کے ایک اہم سادات خاندان یعنی شاہ قبول اولیاء کے گھرانے سے تعلق تھا ان کا اور نام تھا عابد علی سید،ان کا ایک بہت خوبصورت شعر صورتحال کی وضاحت کرتا دکھائی دے رہا ہے کہ
نہ دھند لکوں میں ملیں ہم نہ اجالوں میں ملیں
ہم ملیں بھی تو انہیں خواب کے ہالوں میں ملیں
ہماری سیاسی تاریخ انتخابات کے حوالوں سے مختلف جھرلوئوں سے عبارت رہی ہے ابتداء میں بیلٹ بکسوں کو توڑ کر مخالفین کے ووٹ(طاقتوروں)کے بکسوں میں منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ پورے پورے بکسے غائب کرنے کا جھرلو چلایا گیا،بعد میں نت نئے تجربات ہوتے رہے،یعنی مدمقابل کے پولنگ ایجنٹوں کو غائب کر کے اپنے(وہی طاقتور)حق میں ٹھپے لگا لگا کر اپنے بکسے بھرنے میں عافیت محسوس کرتے رہے اس جھرلو کی انتخابی سیاست کی ابتداء کس نے کی اس حوالے سے ممکن ہے کچھ اور لوگ بھی شامل ہوں مگر زیادہ تر کھرا مرحوم خان قیوم کی جانب جاتا دکھائی دیتا ہے کہ اس حوالے سے وہ اپنے مخالفین کے خلاف جو”جنتر منتر”پھونکتے رہے ہیں اس کا بہت تذکرہ ہوتا ہے بعد میں ایوب خان نے صدارتی انتخابات میں جو سائٹیفکٹ طریقہ ایجاد کیا اور محترمہ فاطمہ جناح کو پڑنے والے ووٹ مبینہ طور پر کیمیکل لگی پرچی کی بدولت ایوب خان کے خانے میں منتقل ہونے کی وجہ سے ان کی جیت کا اعلان کیا گیا یہ ایک انوکھی واردات تھی البتہ ان کے بعد جب اقتدار پر جنرل یحییٰ خان نے قبضہ کرلیا اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا اہتمام کیا گیا تو اب تک کی تاریخ میں ان انتخابات کو مکمل آزادانہ،غیر جانبدارانہ اور منصفانہ قرار دیا جاتا ہے یہ نہیں کہ اُن انتخابات میں”جھرلو”کا عمل دخل نہیں تھا، تاہم وہ فکر ہر کس بہ قدر ہمت اوست یعنی امیدواران کی انفرادی اور ذاتی کاوشوں کا نتیجہ تھا اور جس کا جہاں بس چلا اس سے حتی المقدور دھاندلی کی بہرحال ان انتخابات کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا تو بھٹو مرحوم نے اپنے دور میں جو انتخابات کرائے ان کے نتائج(ظاہر ہے جھرلو کی وجہ سے)اپوزیشن نے تسلیم نہ کئے اور ایک بار پھر مارشل لاء مسلط کر کے جنرل ضیاء الحق نے کچھ مدت بعد ایک اور”جھرلو”کا اہتمام یوں کیا کہ ایک ریفرنڈم کروا کے خود کوقوم پر مسلط کرنے کی نئی ترکیب ڈھونڈ نکالی،اور یہ سوال کر کے جمہوریت کے ساتھ مذاق کیا کہ کیا تم ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے حق میں ہو،اگر جواب ہاں میں ہے تو میں اگلے پانچ سال کیلئے صدر ہوں، موصوف نے جھرلوئوں کی ایک پوری سیریز چلائی تھی اور وہ یوں کہ اس دور کی سیاسی جماعتوں سے جان چھڑانے کیلئے پہلے غیر جماعتی بنیادوں پر اسمبلیوں کے انتخابات کرائے اور پھر اسی غیر جماعتی اسمبلی کی کوکھ سے ایک نئی مسلم لیگ برآمد کر کے حکومت کو”جماعتی”بنا کر اقتدار کے مزے لوٹتا رہا بد قسمتی سے بہاولپور کی فضا میں ان کے طیارے کے اندر”پراسرار” آگ نے فضا کو دھندلا دیا تو آنے والوں نے دوبارہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے مگر”اقتدار”کو جھرلو آلود کرنا نہیں بھولے اس کے بعد اقتدار کے میوزک چیئر پر باریوں کی دھند چھائی رہی اسی دوران جنرل مشرف ایک اور”دھند”بن کر ملکی سیاست کی فضا کو مکدرکرتے رہے گزشتہ انتخابات میں”آرٹی ایس”کا جھرلو کامیابی سے اصل منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا باعث بنا،مگر اس کے ساتھ ساتھ جب سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک سامنے آئی تو ایک نئی طرز کے جھرلونے کام دکھادیا،اس سے پہلے سینیٹ کے انتخابات میں”روایتی چمک”نے جو کام دکھایا اس کے”دستاویزی جھرلو”کی تصویری جھلکیاں ڈھائی سال بعد سامنے آئیں تو ڈھٹائی کی ایک نئی صورت بھی دیکھنے کو ملی کہ”چمک”سے مستفید ہونے ،استفادہ کروانے والے ایک ہی”پیج”سے تعلق رکھنے کے باوجود سیاسی مخالفین پر الزامات عاید کئے جارہے ہیں ایسے موقع پر”اپنی”کارکردگی کو کمال ہوشیاری سے سامنے لا کر اصل مقاصد تجزیہ کاروں کے بقول”عدلیہ”پر اثر انداز ہونا ہے تاکہ وہ آئین کے ماوراء فیصلہ دینے کے بارے میں ذہن سازی کر سکے مگر الیکشن کمیشن کے سخت موقف کی وجہ سے صورتحال کیا ہوگی وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا اور کہنا بھی نہیں چاہیئے کہ”توہین عدالت”کا ارادہ نہیں ہے اور اب تازہ ترین”جھرلو”کے ڈانڈے اس دھند کے اندر پیوست دکھائی دے رہے ہیں جس نے کم وبیش23پولنگ افسروں کو اپنی لپیٹ میں لیکر”راستے”سے بھٹکا دیا تھا اور کسی کی عینک گم ہوگئی تھی کسی کا راستہ گم ہوگیا تھا تو کسی کو دوسرے مسائل کا سامنا کرنا پڑا،تاہم جن کے ذمے پولنگ عملے کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا وہ بھی شاید اسی دھند میں کہیں”گم”ہوگئے تھے بہرحال بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ساری کارستانی”دھند آلود ضمیر”کی تھی،اسی لئے گم ہوجانے والے بقول شاعر
قدم قدم پہ نئی داستان سناتے لوگ
قدم قدم پہ کئی بار جھوٹ بولتے ہیں

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''