5 319

میڈیکل مافیا اور خفتہ ہیلتھ کیئرکمیشن

ایک ای میل میں ہمارے دیرینہ قاری شکیل احمد نے”میڈیکل مافیا”کے بارے کچھ معلومات دے کر اس پر لکھنے کا کہا ہے ۔ای میل میں میڈیکل مافیا کا سخت لفظ کافی سوچنے کے بعد صرف اس لئے لکھا ہے کہ گوکہ ہم سب کے گھرانوں میں کسی نہ کسی طور کسی ڈاکٹر اور طبی عملے سے رشتہ ہوتا ہے اور پھر بیمار پڑنے پر انہی کے پاس جانا پڑتا ہے میرے بہنوئی ڈاکٹر تنصیر نے میری ماں کی جو خدمت کی اسے دیکھ کر تو ہر ڈاکٹر کا احترام لازم لگتا ہے والدہ مرحومہ کے علاج کے دوران ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی جس طرح ہوس زر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اس تناظر میں میڈیکل مافیا کا لفظ موزوں بلکہ بہت موزوں ہے بہرحال ڈاکٹروں سے جس کا واسطہ پڑے اسے ہی معلوم ہوتا ہے ای میل میں صوبائی دارالحکومت کے مشہور طبی علاقہ ڈبگری گارڈنز اور صوبے کے دو بڑے نجی ہسپتالوں کے حوالے سے کافی تفصیل معلوم ہے حیرت ہوئی ہے کہ ہیلتھ کمیشن کے ہوتے ہوئے بڑے بڑے ہسپتالوں میں بھی جعلی ڈاکٹر والے ڈاکٹر جن کو عرف عام میں اتائی کہا جاتا ہے وہ نہ صرف موجود ہیں بلکہ بڑے ڈاکٹروں میں ان کا شمار ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ عام ڈاکٹر جو کسی طرح سے بھی سپیشلسٹ کہلائے نہیں جاسکتے وہ سپیشلسٹ بنے بیٹھے ہیں جن کے کارندے مریض گھیر کر کلینکس اور ہسپتالوں میں لاتے ہیں اور اپنا حصہ وصول کرتے ہیں جو مریض اس طرح کے ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھتے ہیں وہ پہلے جمع پونجی پھر صحت اور بالآخر زندگی گنوادیتے ہیں ڈبگری گارڈنز جائیں یا پھر کسی بڑے میڈیکل سنٹر کے ارد گرد وہاں ٹائوٹ پھر رہے ہوں گے جو مریضوں کے لواحقین کو جھوٹی اور جعلی تسلی دے کر اور ڈاکٹر کی مہارت وقابلیت اور روزانہ مریضوں کی بھیڑ کا سنا کر پھانس لینے کی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ای میل میں شکیل احمد نے بڑے ہسپتالوں کے عملے میں درجنوں ڈاکٹروں نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کے باہر لیبارٹری ایکسرے الٹراسائونڈ اور ایم آر آئی کرنے والوں کے ٹائوٹ ہونے کی نشاندہی کی ہے ان کا طریقہ واردات عموماً ہسپتال کی اوپی ڈی کے بعد مریضوںکو خوف دلا کر اور علاج جلد شروع کروانے کا چکر دے کر تشخیصی سہولیات کیلئے باہر بھیجنے کا ہے نجی ہسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹرز اب ہر دوسرے مریض کا سی سیکشن کرتے ہیں تاکہ بل زیادہ بنے اور ہسپتال یا آس پاس کے میڈیکل سٹوروں کا سامان اور ادویات زیادہ فروخت ہوں جس میں ان کا باقاعدہ حصہ ہوتا ہے اور وہ روزانہ کی بنیاد پر حساب کتاب کر کے اپنی رقم وصول کرتے ہیں اس طرح کے مراکز میں مریض مریض نہیں اسامی ہوتی ہے شکار ہوتا ہے اسے مرغئے کہا جاتا ہے مریض کے لواحقین سفید پوش نظر آئیں تو چھری بھی تیز چلائی جاتی ہے۔بڑے بڑے نجی ہسپتالوں کے بھاری بھر کم بل ان کے معیار کی ضمانت اور اچھے علاج ہونے کا تاثر دیتے ہیں جن کی مہنگائی دیکھ کر لوگ ان پر شک کر کے دور جانے کی بجائے انہی کے دام میں پھنسنے میں ڈاکٹروں کی جانب سے بلاوجہ نسخے اور ٹیسٹ لکھنے کا سوال اگر فزیشن سے پوچھا گیا تو ان کے جواب کاماخذ یہ ہے کہ اس کے بغیر سارا منظر نامہ اور مریض کی صحت وبدن کے حالات واضح نہیں ہوتے اس لئے اسے مجبوری گردان لیجئے۔جبکہ ایک صاف گو آرتھوپیڈک پروفیسر نے اس امر کا اعتراف کیا کہ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ یہ مریضوں اور ان کے لواحقین کی نفسیات بن گئی ہے ورنہ ہر مریض کو ایکسرے اور مختلف ٹیسٹوں کی ضرورت نہیں ہوتی علامات اور دستی معائنہ کافی ہوتا ہے لیکن اگر میں اس پر علاج شروع کروں تو میرے مریض شاید ہی دوسری مرتبہ آئیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سستی اورمعمولی ادویات سے علاج ممکن ہوتا ہے یہاں بھی مریض اور ان کے لواحقین کی نفسیات کا مسئلہ ہے یہاں تک کہ میں اپنے دوستوں اوررشتہ داروں کو اگر ایکسرے وٹیسٹ کے بغیر اورنہایت سستے ادویات تجویز کرتا ہوں اورادویات کی بجائے ورزش سے ٹھیک ہونے کا طریقہ بتا تا ہوں تو ان کو تسلی نہیں ہوتی اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ چونکہ ان سے فیس نہیں لی جاسکتی اس لئے ڈاکٹر صاحب نے ٹرخادیا حالانکہ ایسا نہیں ہوتا موصوف کو جب مریض کی مالی حالات کا اندازہ ہوتا ہے تو صاف بتا تے ہیں کہ ٹیسٹ اتنا ضروری نہیں آپ چاہیں تو بغیر ٹیسٹ دوائی لکھ دوں ٹھیک نہ ہو تو پھر اگلی دفعہ ٹیسٹ کرالیں گے تو عموماً وہ ہچکچاتے ہیں اور کم ہی خوشی خوشی قبول کرتے ہیں۔یہ سارا عمل نفسیات کردار اور فرائض کی انجام دہی کے گرد گھومتا ہے ڈاکٹر اچھے اور ایماندار بھی ہوتے ہیں رحم دل اور نادار مریضوں کا جیب سے علاج کرنے والے بھی اور ایسے بھی ہوتے ہیں جو ڈاکو اور جیب کترے مشہور ہوتے ہیں بس یہ نصیب کی بات ہے کسے کون ٹکرے ہیلتھ کمیشن کو اس ساری صورتحال کا علم ہونا چاہیئے اور اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کر کے عوام کو خود اپنے خرچ پر ہی سہی دھوکہ کھائے بغیر علاج کرانے کی سہولت ہی بنانا چاہیئے ایسا تب ہوگا جب ملی بھگت چھوڑ کر عوام کی سنی جائے۔ قارئین اس ای میل gmail.com rozanekhial@ پر اپنی شکایات اور مسائل پر بھجوا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام