1 405

آزادی کی روبکار ابھی نہیں پہنچی

ہمارے جنم شہر کے ملتان ٹی ہائوس اور اہل دانش کی تنظیم سخن ور فورم کے زیراہتمام ”پولیٹیکل اکانومی کے ہماری سیاست اور معیشت پر کیا اثرات ہیں” کے عنوان سے منعقدہ سیمینار کے دوران دلچسپ باتیں ہوئیں۔ ایک مہمان مقرر کو گفتگو کیلئے بلانے سے قبل رضی الدین رضی نے جو کلمات ادا کئے ان پر ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ ان تالیوں نے یہ یقین دلایا کہ رعایا کے درمیان بستے عوام ہونے کا شعور رکھنے والے لوگ بھلے کم ہیں لیکن وہ نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ اب تو اشاروں میں ہوئی بات بھی سمجھ لیتے ہیں۔ اچھا سمجھ لینا، پھر ہضم کرنا یا یوں کہہ لیجئے کہ اسے اپنے شعور کی ترجمانی سمجھنا یہ زیادہ اہم ہے۔ رضی الدین رضی نے ملتان کے ڈی ایچ اے میں منعقد ہونے والے بلوچستان عالمی سکواش ٹورنامنٹ کے حوالے سے زیرلب مسکراتے ہوئے کہا، ملتان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کیلئے تفریح کا سامان (میچز) ملتان میں ہوتا ہے۔ یہ بات ہے ویسے رونے والی، ہم دنیا کو بتانا اور سمجھانا کیا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیمینار میں شرکت سے قبل ٹی ہائوس میں سید ذوالقرنین گیلانی ایڈووکیٹ اور محمد شعیب کیساتھ جمی محفل میں بھی بلوچ ایشو پر ہی بات ہوئی۔ میری رائے یہی تھی کہ قومی مزاحمت کے نام پر مزدوروں کا قتل عام درست نہیں اس سے ہمسایہ اقوام میں مثبت تاثر نہیں جاتا بلکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قومی حقوق کی سیاسی تحریک پر وہ عسکریت پسند قابض ہیں جو شرف انسانی سے متصادم اپنے عمل کو محرومیوں کے اظہار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس دوران نوجوانوں کے تندوتیز سوالات میں چھپی ناراضگی نے خوفزدہ بھی کیا۔ بظاہر دیکھا جائے تو اصل قصور ہمارے ان پالیسی سازوں کا ہے جو مساویانہ پالیسیوں کی بجائے حاکمیت کے زعم کو پروان چڑھاتے ہیں جبکہ ہمیں اور پالیسی سازوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ 22کروڑ عوام کا ملک ہے، اس ملک کے اصل مالک عوام ہیں اور عوام کو رعایا سمجھنا ظلم ہے۔ ستم یہ ہے کہ نتائج کا پس منظر سمجھنے کی بجائے ہم تاویلات گھڑتے ہیں اس سے مزید خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ نوجوان دوستوں کے تلخ و تند سوالات کے جواب میں عرض کیا، مظلوم اقوام کو متحد ہوکر سیاسی و معاشی حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ اشرافیہ کی نظام پر گرفت کو توڑنا آسان نہیں ہوگا ثانیاً یہ کہ سیاسی و معاشی اور شہری حقوق کی جدوجہد طبقاتی شعور پر منظم کرناہوگی۔ 94یا 90 فیصد طبقات کا حصہ بنے لوگوں کو 10فیصد کا طوق غلامی گلوں سے اُتارنا ہوگا۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ دستیاب سیاسی جماعتوں پر دبائو بڑھایا جائے کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد اشرافیہ کی دلجوئی کی بجائے عام آدمی کے مفادات کے تحفظ کو اولیت دیں۔ یہ بھی عرض کیا جائے کہ مجھ ناچیز کی رائے میں اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں آباد قوموں کے درمیان نیا عمرانی معاہدہ ہو۔ ذوالقرنین گیلانی کا سوال تھا کہ کیا ہم ایک نیا دستور بنانے کے ماحول میں ہیں؟ عرض کیا نئے دستور کی تشکیل میں بہت مشکلات ہوں گی اس سے بہتر اور مناسب یہ ہوگا کہ مساوی حقوق کا نیا عمرانی معاہدہ ہو اور اسے دستور کا بیانیہ قرار دیا جائے۔ عددی اکثریت پر دوسروں کے وسائل ہڑپ کرنے یا انہیں شودر سمجھنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔ ہمیں اکٹھا رہنا ہے تو ازسرنو معاملات طے کرنا ہوں گے۔ کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ 1973 کا دستور مزید ایسی ترامیم کا متقاضی ہے جو عوام کو حق حاکمیت عطا کریں کوئی طبقہ یا کوئی اور خود کو مصلح اور حاکم نہ سمجھے بلکہ عوام کی رائے کا احترام کیا جائے۔ محفل میں انسانی تاریخ میں ہوئی انتقال آبادیوں اور ان کی وجوہات پر بات ہوئی۔ تفصیل کیساتھ اپنی معروضات پیش کیں، انہیں کسی اور کالم میں تحریر کروں گا۔
اہم بات یہ ہے کہ اصلاحات کے ایجنڈوں کے نام پر ملنے والی امدادوں یا زندہ رہنے کیلئے حاصل کئے جانے والے قرضوں ہر دو کیلئے جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ان میں عوام تو یکسر نظرانداز ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پر آئی ایم ایف نے6روپے یونٹ بجلی کی قیمت بڑھانے کو کہا تھا3روپے90پیسے ہم بڑھاچکے 2روپے10پیسے کا وعدہ ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں ہم نے20ارب ڈالر کے قرضے واپس کئے۔ پچھلی حکومتوں نے بھی خود سے پچھلی حکومتوں کے قرضے واپس کئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ16دسمبر1971 کے بعد سے آج تک جتنے قرضے لئے گئے ان میں سے کتنے کس مد میں خرچ ہوئے؟ لوگ اگر یہ پوچھتے ہیں کہ آٹا 75روپے کلو ہے اور میزائل تجربہ ہر دو ماہ بعد ہورہا ہے تو ہمیں بتایا جائے یہ اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ سچی بات یہ ہے کہ یہ فطری سوال ہے۔ ہم 15ویں نہیں 21ویں صدی میں رہ رہے ہیں یہ غلاموں یا مفتوحین کا نہیں آزاد لوگوں کا ملک ہے سوالات کا برا منانے کی ضرورت نہیں۔ ایک شہری کے طور پر یہ عرض کرنے کا حق ہے کہ حضور اسلحہ کی دوڑ اور تجربوں کے مقابلہ میں شرکت کرنے کی بجائے دستیاب وسائل حقیقی مدوں میں صرف کیجئے۔ زرعی معیشت کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور ویسے مجھے وجاہت مسعود کی اس بات نے اپیل کی کہ تہتر برس قبل ہماری آزادی کا حکم تو جاری ہوگیا لیکن ہماری روبکار ابھی نہیں پہنچی۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار