3 326

بارش کے سب حروف کو اُلٹا کے پی گیا

دادا پوتے کی وہ گفتگو یاد آگئی ہے جو ایک لطیفے کی صورت بہت مدت پہلے آج کے الفاظ میں وائرل ہوئی تھی۔ اس گفتگو کے دوران پوتا چاہتا تھا کہ دادا اسے شہر میں آنے والے سرکس میں لیکر جائے مگر دادا کسی طور راضی نہیں ہو رہا تھا، مگر جب پوتے نے یہ بتایا کہ سرکس میں ایک خاتون اپنے گھنے اور لمبے بالوں سے جسم کو ڈھانپے سفید گھوڑے پر کرتب دکھاتی ہے، تو داداجی نے فوراً حامی بھرتے ہوئے کہا! آؤ چلتے ہیں، میں نے کبھی سفید گھوڑا نہیں دیکھا۔ یہ پرانا لطیفہ یاد آنے کا کارن سعودی عرب میں ہونے والی دنیا کی مہنگی ترین گھڑ ریس ہے، جس میں سعودی گھوڑے نے امریکی گھوڑے کو شکست سے دوچار کیا۔ جیتنے والے گھڑسوار کو دوکروڑ ڈالر انعام دیا گیا مگر یہ کوئی خاص بات نہیں کہ اس طرح کے گھڑ دوڑ مقابلے تو کئی ممالک میں ہوتے ہیں اور خاص طور پر ڈربی ریس کا تو خاص مقام ہے جو انگلستان میں کئی دہائیوں سے منعقد ہوتا ہے جبکہ اس ریس کے ٹکٹ دنیا بھر میں بکتے ہیں اور لوگ اس میں بہت دلچسپی لیتے ہیں، تاہم جب سے عرب ممالک اور خصوصاً سعودی عرب میں ”سعود کپ” کے نام سے گھڑ دوڑ مقابلوں کا آغاز ہوا ہے اس نے انگلینڈ کے ڈربی ریس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، خاص بات مگر اس بار سعودکپ کی یہ تھی کہ گھوڑوں کے درمیان مقابلے کیساتھ ساتھ خواتین کے فیشن تماشائیوں کی توجہ کا مرکز تھے اور یہ پہلی بار ہوا کہ خواتین نے ریس کے دوران فیشن ملبوسات بھی متعارف کروائے، گویا اس پرانے لطیفے کا اعادہ کیا اور گھوڑوں کے سنگ مختلف ملبوسات کی نمائش سے سرکس کے اس سفید گھوڑے پر کرتب دکھانے والی خاتون کی یاد تازہ کی گئی، سو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس فیشن زدہ گھڑ دوڑ میں بہت سے لوگ مہنگے ترین ٹکٹ خرید کر ”گھوڑوں” کو دیکھنے اُمڈ آئے ہوں گے۔ بقول عبدالحمید عدم
بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدم
بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا
میانمار میں حالیہ فوجی بغاوت کیخلاف عوام نے انوکھا احتجاج شروع کر دیا ہے، گزشتہ روز ینگون میں ہزاروں افراد بینڈ باجے لیکر سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی جنتا کیخلاف شدید نعرے بازی کی، انہوں نے پرامن انداز میں ریلی نکالی جبکہ مظاہرین نے سیاسی رہنماؤں کی تصاویر بھی اُٹھا رکھی تھیں۔ اب ان بینڈ باجوں سے اُٹھنے والی موسیقی کی دھنوں سے میانمار کی فوجی جنتا نے کیا فائدہ اُٹھایا ہوگا عین ممکن ہے کہ وہاں کے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر یہ پروپیگنڈہ جاری ہو کہ عوام نے خوش ہو کر فوجی جنتا کے اقدام کی حمایت میں ریلی نکالی ہے یعنی ڈھول تماشوں کے سنگ سیاستدانوں کے ”کرتوتوں” پر تبرہ ”گا” رہے ہیں اور یہ جو سیاسی رہنماؤں کی تصاویر اُٹھا کر ریلی نکالی گئی ہے تو یہ ان کی پالیسیوں کیخلاف احتجاج کی ایک شکل ہے، اس پر بہت عرصہ پہلے ملتان کے ایک سابق میئر اور بعد میں ممبر قومی اسمبلی حاجی محمد بوٹا مرحوم کیساتھ ہونے والا واقعہ یاد آگیا۔ یہ کہانی ہمیں ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے دوران ملتان سٹیشن پر تعیناتی کے دوران وہاں کے دوستوں نے سنائی تھی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ مرحوم میئر نے مبینہ طور پر ترقیاتی فنڈز میں بے پناہ خردبرد کی تھی تو ان کیخلاف ملتان کے شہریوں نے ایک ریلی نکالی جو مختلف بازاروں سے ہوتی ہوئی میونسپل کارپوریشن کے سامنے نعرے بازی پر اُترآئی۔ احتجاج کرنے والوں میں سے ایک شخص یہ نعرہ لگاتا کہ ”ملتان کو کس نے لوٹا؟” تو آگے پورا ہجوم جوابی نعرہ لگاتا ”حاجی بوٹا، حاجی بوٹا” یعنی یہ احتجاجی نعرہ ان الفاظ پر مشتمل تکمیل تک پہنچتا کہ ”ملتان کوکس نے لوٹا، حاجی بوٹا حاجی بوٹا”۔ جب حاجی محمد بوٹا مرحوم کے کانوں میں شور پڑا جو اس وقت اپنے دفتر میں موجود تھا، تو موصوف نے صرف حاجی بوٹا حاجی بوٹا کے فلک شگاف نعرے سن کر شیشے لگی کھڑکیوں کے پیچھے سے یہ سوچ کر ہاتھ ہلا کر ہجوم کو ”پذیرائی” کی شکل میں جواب دیا وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ لوگ اس کے حق میں نعرے بازی کر رہے ہیں، اب یہ جو میانمار کے عوام نے چند روز تک احتجاج کر کے بھی دیکھ لیا کہ فوجی جنتا کے گانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تو انہوں نے خواہ مخواہ مار کھانے، گرفتاریاں دینے اور نتیجہ صفر نکلنے کے بعد اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے ڈھول تاشوں کیساتھ احتجاج کو نیا رنگ دینے کی ٹھان لی ہے، تاہم اگر اس پر بھی مارشل لاء حکام ٹس سے مس نہ ہوئے تو پھر یقینا انہیں خاموشی کی چادر اوڑھ کر احتجاج کو نئی صورت دینا پڑے گی۔ ایسے موقعوں کیلئے مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان نے کیا خوب کہا تھا کہ
غم نہیں گر لب اظہار پہ پابندی ہے
خامشی کو بھی تو اک طرز نوا کہتے ہیں

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں