4 311

آئی ایم ایف پروگرام کی قیمت

تحریک انصاف مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومتوں کو غیرملکی قرضوں میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیتی آئی ہے جبکہ اس کے برعکس گزشتہ ڈھائی سال میں 5ارب ڈالر قرض کا اضافہ ہوا ہے، ان قرضوں میں اگر برادر اسلامی ممالک اور دوست ممالک سے ملنے والے قلیل المدتی قرض بھی شامل کرلیں تو اس حجم میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بیرونی ممالک سے قرض لینے کا سلسلہ تاحال جاری ہے’ اس لئے خدشہ ہے کہ جب تحریک کی حکومت ختم ہوگی تو صحیح معنوں میں تب اندازہ ہوگا کہ بیرونی قرض میں کتنا اضافہ ہوا۔ شنید ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو معاشی پروگرام کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے قسط کی ادئیگی میں کٹوتی کی ہے’ آئی ایم ایف نے معاہدے کے مطابق 2ارب ڈالر کی قسط جاری کرنی تھی لیکن انہوں نے 50کروڑ جاری کرنے کی منظوری دیتے ہوئے پاکستان سے متعدد شعبوں میں اصلاحات لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 59ارب روپے ہونا چاہئے’ آئی ایم ایف کی طرف سے ایف بی آر میں اصلاحات اور ٹیکس وصولیوں مں اضافے کی بات سن کر ایک لمحے کو معلوم ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی ترقی کا خواہاں ہے لیکن یہ خواب اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب آئی ایم ایف کی طرف سے بجلی وگیس کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کیا جاتا ہے’ صرف یہی نہیں آئی ایم ایف نے معاشی پروگرام میں یہ شرط بھی رکھی ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا’ گزشتہ دنوں سرکاری ملازمین نے جب اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاج کیا تو حکومت نے ملازمین کو آنسو گیس کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی تاکہ آئی ایم ایف کیساتھ معاہدے کی پاسداری کی جا سکے، لیکن جب حکومت کی بس کی بات نہ رہی اور مظاہرین مطالبات پر ڈٹے رہے تو حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے کہ اگر تنخواہوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو مظاہرین کو منتشر کرنا مشکل ہو جائے گا’ آئی ایم ایف کی طرف سے چند شرائط کیساتھ اجازت دی گئی کہ پھر بجٹ میں تنخواہوں میں اضافے سے گریز کیا جائے۔
گزشتہ سال آئی ایم ایف کی طرف سے کورونا وائرس کے باعث پاکستان کی ادائیگیوں میں مہلت کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ابھی چھ ماہ کا عرصہ ہی گزرا ہے کہ انہوں نے نئی قسط کے اجراء میں کٹوتی کرتے ہوئے نئی شرائط کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اُترنے کیلئے ابھی عوام کو مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا’ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت جس قدر مہنگائی کر دی گئی ہے یا آنے والے کچھ ماہ میں مہنگائی ہونے والی ہے’ عوام اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے عنان اقتدار سنبھالنے سے پہلے کہا تھا کہ وہ حکومت میں آتے ہی غیرملکی قرضوں کو ختم کر دیں گے’ اس کا فارمولا بیان کرتے ہوئے وہ کہا کرتے تھے کہ بدعنوانی کا خاتمہ کر کے پیسہ بچائیں گے’ لیکن اب جبکہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں تو کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہو رہا ہے’ بلکہ ہم تنزلی کی طرف تیزی کیساتھ بڑھ رہے ہیں اور بیرونی ممالک سے قرض لینے کی جو روش سابق حکمرانوں نے اپنا رکھی تھی’ موجودہ حکومت بھی اسی پر عمل پیرا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے تاہم گزشتہ چند مہینوں میں ہی 150ارب روپے سے زائد کی گندم و چینی درآمد کی گئی ہے، اگر ملکی سطح پر زراعت پر معمولی سی توجہ دی جاتی تو 150ارب روپے کی خطیر رقم کی بچت کی جا سکتی تھی۔ صنعتوں کی صورتحال اس سے بھی ابتری کا شکار ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی اہم وجہ درآمدات پر اُٹھنے والے اخراجات ہیں’ مگر حکومت کی اس طرف توجہ نہیں ہے’ اس وقت معیشت کا انحصار تارکین وطن کے ترسیلات زر پر ہے’ حکومت اس پر خوش ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی زرِمبادلہ میں اضافہ کا اہم ذریعہ ہیں، تاہم معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بندوبست اگرچہ معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن اس میں کسی بھی وقت رکاوٹ آسکتی ہے’ کورونا وبا نے اس مؤقف کو تقویت بھی دی ہے جب تارکین وطن کیلئے روح اور سانس کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا تھا تو وہ ملک کیلئے پیسہ کہاں سے بھجواتے؟ ملکوں کی معیشت میں جن عوامل کا بنیادی کردار ہوتا ہے’ حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے بلکہ معیشت کی مستقل بحالی کیخلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں’ ایسے حالات میں جبکہ پوری دنیا میں صنعتکاروں کو بجلی کی مد میں ریلیف فراہم کیا جا رہا ہے تو پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس اضافے سے یقینا پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جائے گا اور ہمارا صنعتکار عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی ہمت نہ کر سکے گا، معاشی ناگفتہ بہ صورتحال کا بنیادی مرکز اور اصل وجہ غیرملکی قرضے ہیں، جس کے بوجھ میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اگر خودکفالت کی طرف قدم نہ اُٹھایا گیا تو حالات مزید سنگینی کی طرف جا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر