5 320

جامعات کا مالی بحران

پچھلے دنوں پشاور یونیورسٹی کے معاملات خبروں میں اور سوشل میڈیا میں زیرگردش رہے، ویسے تو گزشتہ کئی برسوں سے جامعات کے تدریسی، تعلیمی اور انتظامی معاملات سب بحران کا شکار رہے ہیں، لیکن پشاور یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے حالات ہر لحاظ سے دگرگونی کے شکار ہیں۔ لیکن اصل معاملہ، مالی مشکلات کا ہے۔ زرعی یونیورسٹی پشاور میں بیسیوں اساتذہ ساٹھ برس کی عمر کو پہنچ کر ریٹائر ہو چکے ہیں اور اسی طرح باقی دو یونیورسٹیوں میں بھی اساتذہ ریٹائر ہوکر پنشن پر چلے گئے ہیں لیکن بہت کم اساتذہ کو اُن کی ایل پی آر انکیشمنٹ وغیرہ کی ادائیگی ممکن ہو سکی ہے کیونکہ جامعات کے پاس فنڈنگ کی کمی ہے۔
ویسے کوئی تصور اور اندازہ اس بات کا کر سکتا ہے کہ تیس پینتیس برس ملازمت کرنے کے بعد جب انسان ریٹائر ہو جاتا ہے تو اس بات کی اُمید لگائے بیٹھا ہوتا ہے کہ اب کچھ رقم یکمشت مل جائے گی جس سے بعض ضروری اُمور جیسے گھر کی تعمیر، بچوں کی شادیاں اور حج وغیرہ جیسے فرائض سے سبکدوش ہوا جا سکے گا لیکن جب ریٹائرمنٹ کے بعد مہینے اور سال گزر جاتے ہیں اور یہ رقم جو پنشن پر جانے والے ہر ملازم کا حق ہوتا ہے نہیں ملتی تو جو مایوسی ہوتی ہے اُس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جن پر گزرتی ہے۔
خیر یہ معاملات تو چلے آرہے تھے کہ پچھلے دنوں دو بڑے نازک، تلخ، ناآشنا واقعات پشاور یونیورسٹی میں رونما ہوئے۔
ایک یہ کہ کئی سو کلاس فور اور بعض دیگر ملازمین کو جو کئی برسوں سے کنٹریکٹ پر کام کر رہے تھے مالی مشکلات کے سبب بیک جنبش قلم فارغ کر دئیے گئے، اس پر وہ کافی دنوں تک سراپا احتجاج رہے اور شاید اُن کے نمائندے عدالت بھی گئے تھے اور اسی طرح کا معاملہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں ہوا تھا لیکن شنید ہے کہ وہاں کے کنٹریکٹ ملازمین مستقل کر دئیے گئے جبکہ جامعہ پشاور کے ملازمین برخاست کر دئیے گئے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ آخر ان بے چاروں کو آٹھ دس برس تک کنٹریکٹ پر کیوں رکھا گیا اور پھر یوں اس کرونا وباء کے دور میں کہ کہیں اور بھی روزگار کا ملنا بہت مشکل ہے۔ یقینا کسی کو بیروزگار کرنا بہت بڑا ظلم ہے لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو جامعات بھی ضرورت اور حد سے زیادہ ملازمین کی کفالت کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ جامعات کیساتھ یہ ظلم اور ناروا سلوک اُن وائس چانسلرز نے کیا ہے جنہوں نے اپنے علاقے، رشتہ داروں اور سیاسی بنیادوں پر اپنی سیاسی جماعتوں کیلئے ووٹ بنک میں اضافے کیلئے لوگ بھرتی کئے۔
انتظامیہ کے اعلیٰ اور وائس چانسلرز کے قریبی افسران نے جب حالات کا رخ یہ دیکھا تو اُنہوں نے بھی گرم تندور میں اپنے پیڑے لگانے میں کوئی عیب اور قباحت نہیں جانی، نتیجتاً جامعات کی ناتواں پیٹھوں اور کندھوں پر اُن کی استطاعت سے زیادہ بوجھ پڑگیا جس سے اُن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پچھلے مہینے یعنی جنوری کی تنخواہ کی مکمل ادائیگی ممکن نہیں تھی، ملازمین کو آدھی تنخواہ پر ٹرخانے کی کوششیں ہوئیں لیکن پیوٹا اور ملازمین کی دیگر تنظیموں نے احتجاج کیا اور بھرپور احتجاج کیا۔
صوبائی حکومت نے شاید کچھ تھوڑی بہت گرانٹ تو منظور کی ہے لیکن اس وقت یونیورسٹیوں کے معاملات بھی بجلی کمپنیوں جیسے ہونے لگے ہیں کہ ان کا سرکلر ڈیبٹ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
ایچ ای سی الگ سے جامعات کیلئے سفید ہاتھی تو تھا ہی، اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی ایچ ای ڈیز ٹائٹینک کو ڈبونے کیلئے آخری تنکا ثابت ہورہی ہیں۔
اب خیر سے اساتذہ نے اپنے جائز مطالبات کہ اُن کو پوری تنخواہیں اور پنشن وصول کرنے کی اُمیدیں کمزور پڑتی جارہی ہیں، کلاسوں کی بائیکاٹ کا بھی فیصلہ کیا ہے، جو یقینا ملک وقوم کے نوجوان طلبہ وطالبات کی تعلیمی سرگرمیوں اور ترقی کیلئے زہرقاتل سے کم نہیں ہے۔ اس کے جواب میں طلبہ نے الگ سے احتجاج کی دھمکیاں دی ہیں جو یقینا برحق ہے کیونکہ کرونا نے طلبہ کا قیمتی سال ضائع کیا ہے اور مزید وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ فی الفور جامعات کے ان معاملات کو خوش اسلوبی کیساتھ حل کرے ورنہ اس کے نتائج ملک وقوم کیساتھ ساتھ پی ٹی آئی حکومت کیلئے بھی نیک شگون نہیں ہوگا کیونکہ پی ٹی آئی دعویٰ کرتی آئی ہے کہ ہم نے تعلیم کے میدان میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔
احساس پروگرام کے ذریعے طلبہ کی مالی مدد کی ہے لیکن اصل مسئلہ اساتذہ کرام کی تنخواہوں اور پنشن کا ہے اور دیگر ملازمین کی مراعات کا ہے کیونکہ اُن کے بغیر یہ معاملات حل ہونے کے نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟