1 58

افغانستان، نئے بحرانوں کی شروعات

جب یہ کالم پریس میں چھپنے کیلئے جا رہا تھا اس وقت تک کابل میں ماحول تناؤ کا شکار تھا۔ امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد صدارت کے دعویدار اور ”زیرتنازعہ” اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے مابین شٹل کاک بنے ہوئے تھے تاکہ ان دونوں کو اپنی اپنی حلف برداری کی تقریبات منسوخ کرنے اور کسی معاہدے پر راضی کرسکیں لیکن بات جب نہ بنی تو امریکی نمائندگی کرنے والے تمام لوگ اشرف غنی کی حلف برداری میں پہنچ گئے۔
اس بار بھی سال2014 کی طرح اشرف غنی کیساتھ ہی عبداللہ عبداللہ نے بھی صدارتی انتخابات میں اپنی جیت کا اعلان کر دیا تھا جس نے ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دیا۔ اب کی بار معاملہ پہلے سے بہت آگے کا ہے، اب بات صرف صدارتی کرسی تک رسائی کی نہیں ہے بلکہ افغانستان میں حالیہ امریکہ طالبان امن معاہدے کیساتھ آگے چلنے کی ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے ایک ساتھ چلنے کا سوال ابھی جواب طلب ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عبداللہ عبداللہ اشرف غنی کو صدر مان بھی لیں تو کیا افغان طالبان بھی ایسا کریں گے؟ اور اگر وہ ایسا کریں گے تو خود ان کے ہاتھ کیا آئے گا؟ افغان طالبان کے اب تک کی باڈی لینگویج سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ اشرف غنی تو کیا پوری افغان حکومت کو ہی اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان سے بات بھی کی جائے۔ ایک سوال اور بھی ہے کہ جب آج بین الافغان مذاکرات شروع ہونے جا رہے ہیں سے ایک دن پہلے صدر اشرف غنی کی حلف برداری کی تقریب میں امریکیوں کی شمولیت سے کیا پیغام دیا گیا ہے؟ انہیں امریکہ کی حمایت ملنے سے یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ پھر طالبان کیساتھ معاہدے میں جانے کا کیا مقصد تھا؟
افغان حکومت کے سربراہ اشرف غنی چاہتے ہیں کہ طالبان ان کیساتھ تمام معاملات پر ازسرنو مذاکرات کریں اور ان کیساتھ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھیں، طالبان انہیں قانونی صدر بھی مانیں اور ان کے صدارتی دور کے خاتمے تک انتظار بھی کریں لیکن 29فروری کو امریکہ کیساتھ مذاکرات کرنے والے طالبان کا ایسا کوئی ارادہ نظرنہیں آرہا۔ کہا جاتا ہے کہ اشرف غنی نے امریکہ طالبان مذاکرات کے دوران نہ صرف بوجوہ وقت سے کچھ پہلے صدارتی انتخابات کرا کر کسی حد تک جلد بازی کا مظاہرہ کیا بلکہ عبداللہ عبداللہ اور طالبان کی جانب سے صدارتی نتائج کو مسترد کئے جانے کے باوجود حلف برداری منعقد کرکے افغانستان کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا ہے اور یہ ایسا بحران ہے جس کا حل کسی بھی فریق یا ان کے کسی خیرخواہ کے پاس نظر نہیں آتا۔ شاید اب طالبان ہوں، امریکہ ہو یا پاکستان وہ اس نئے بحران کو حل کرنے کی کوئی صورت نہ نکال پائیں۔ وہ اگر اب کی بار بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی کوئی اُمید لگائے بیٹھے ہیں تو ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ امریکی صدر بہت واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ اب لوگوں (ملکوں) کو اپنے اپنے معاملات خود ہی حل کرنے ہوں گے۔ امریکہ نے پوری دنیا کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا، امریکی صدرٹرمپ کا بیان بڑا واضح ہے کہ انہوں نے بیس سال تک افغانستان کی حفاظت کی اور وہ مزید اتنے عرصے کیلئے افغانستان میں نہیں رہ سکتے اور انہوں نے ہر صورت اپنی فوج کو واپس لے کر جانا ہے۔ ایسا کہتے ہوئے ان کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کے جانے کے بعد ہوسکتا ہے طالبان افغان حکومت کو مغلوب یا تاخت وتاراج کردیں لیکن وہ کب تک افغانستان میں بیٹھ کر ایسی صورتحال کا راستہ روکے رہیں گے؟
اس سیاسی جنجال کیساتھ امریکہ طالبان امن معاہدے کا دوسرا مرحلہ یعنی بین الافغان مذاکرات بھی آج شروع کئے جانے ہیں لیکن اس معاملے پر بھی ابھی تک کسی خوش گمانی کیلئے بنیاد نہیں مل رہی۔ افغان حکومت خصوصا نئے ”صدر” اشرف غنی کی جانب سے معاہدے کی پہلی شق یعنی قیدیوں کی رہائی کا کوئی اشارہ نہیں ملا تو ایسے میں یہ بین الافغان بات چیت کس بنیاد پر آگے بڑھے گی؟
جہاں مذکورہ دونوں سیاسی معاملے اپنی جگہ موجود ہیں ایسے میں داعش کی جانب سے کابل میں حالیہ بڑے حملے کی ذمے داری کی قبولیت نے عسکری لحاظ سے بھی خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں اور امریکہ سمیت افغان حکومت میں سے کوئی بھی ان تینوں بحرانوں پر قابو پانے کی صلاحیت اور شاید ارادہ بھی نہیں رکھتے۔ اس صورتحال میں ایک طالبان ہی ہیں جو اگر ان بحرانوں سے نکلنے کیلئے افغان حکومت اور امریکہ کا ساتھ دیں تو ان سے نمٹنے کی کوئی سبیل شاید نظر آجائے کیونکہ موجودہ بحرانی کیفیت میں سیاسی اور عسکری طور پر اگر کوئی فریق متحد ومتفق اور آپس کی لڑائیوں سے بچا ہوا ہے تو وہ صرف طالبان ہی ہیں۔ ایسا کہنے کا مقصد طالبان کو ہرگز دوسرے فریقین سے زیادہ مستعد اور بہتر ماننا نہیں، ہاں البتہ اگر افغان صدر اشرف غنی اپنی ذات سے بالاتر ہوکرافغان پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکرچلیں تووہ اخلاقی سبقت حاصل کرسکتے ہیں بس اس کیلئے انہیں اپنی ذات سے بالاتر ہوکر قربانی دینی ہوگی جس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔
”سب اچھا” کرنا طالبان کیلئے بھی کوئی آسان نہیں ہوگا لیکن وہ دیگر دونوں فریقین امریکہ اور افغان حکومت کے مقابلے میں قدرے بہتر پوزیشن میں ہیں کہ وہ ایک طرف جہاں اخلاقی طور پر ایک بین الاقوامی معاہدے کی ڈورکیساتھ بندھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب وہ عسکری لحاظ سے بھی داعش کو وختہ ڈال سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو