p613 270

دستکاری مراکز کو فعال بنانے میں تاخیر نہ ہو

یبر پختونخوا کی ہدایت پر صوبہ بھر میں غیرفعال105دستکاری سنٹرز کو دوبارہ سے فعال کیا جارہا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مذکورہ دستکاری سنٹرز کو دوبارہ سے فعال کرنے کیلئے10کروڑ8لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو خصوصی فنڈز سے جاری ہوں گے ۔ منصوبے پر رواں برس کام شروع ہونا متوقع ہے۔ صوبے میں خواتین کو خود روزگار دلانے اور روایتی معاشرے میں خواتین کو گھر بیٹھے کام کرنے کی سہولیات پر توجہ کا یہ عالم ہے کہ ایک سو پانچ دستکاری مراکز اب تک بند تھے، اس کی جو بھی وجوہات تھیں ان کو جلد سے جلد دور کیا جائے اور جتنا جلد ہو سکے فنڈز کا اجراء کرکے ان مراکز کو جلد سے جلد فعال کیا جائے۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس ضمن میں حسب روایت تاخیر نہیں ہوگی۔
کورونا ویکسی نیشن’ تعجیل و انکارکی صورتحال
صوبائی حکومت کی جانب سے آئندہ ماہ سے عام آبادی میں کورونا سے بچائو کی ویکسی نیشن شروع کرنے کا فیصلہ ویکسین لگانے کے خواہشمند افراد کیلئے اطمینان کا باعث امر ہے، طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک جانب بعض عناصر سفارش اور ہر حربہ بروئے کار لا کر ویکسین لگانے کی تگ ودو میں ہے تو دوسری جانب ویکسین سے اجتناب کرنے والے افراد کی تعداد بھی کم نہیں، کسی پراپیگنڈے کا شکار ہونے والوں کی تعداد کتنی ہے اس کا کچھ اندازہ نہیں البتہ باشعور افراد کی بڑی تعداد کی بھی ویکسین لگانے میں عدم دلچسپی کی اطلاعات ہیں۔ خیبر پختونخوا میں طبی عملے کی جانب سے لیت ولعل کی کوئی اطلاع نہیں، البتہ محکمہ صحت سندھ نے ویکسین لگوانے سے انکارکرنے والے ہیلتھ ورکرزکیخلاف محکمانہ کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ محکمہ کی پالیسی کے مطابق ویکسی نیشن سے کوئی انکارنہیں کرسکتااوراگر انکارکرے گا تو اس کو جو بینیفٹ الائونسز ملنے ہیں وہ روک دئیے جائیں گے بلکہ ری ایمبرزبھی ہوں گے۔ہم سمجھتے ہیں کہ خود اپنی صحت اور زندگی کے تحفظ سے انکاری عناصر خواہ ان کا تعلق محکمہ صحت سے ہو یا وہ عام لوگ ہوں، سرکاری ملازمین کیخلاف تو انکار پر تادیبی کارروائی اور مراعات کی واپسی ممکن ہے لیکن عام لوگوں کو ترغیب اور شعور وآگہی کے ذریعے ہی راغب کیا جاسکتا ہے اس پر توجہ دی جانی چاہئے، قبل اس کے کہ ویکسین لگوانے سے انکار معمول بن جائے۔
پولیو قطرے پلانے کی خصوصی مہم کی ضرورت
خیبر پختونخوا میںحفاظتی ٹیکہ جات بالخصوص انسداد پولیو پروگرام ناقابل تلافی نقصان کیساتھ10سال پیچھے چلے جانے کی اطلاعات تشویش کا باعث امر ہے، ہمارے نمائندے کے مطابق نومبر کے بعد سے خیبر پختونخوا میں انسداد پولیو مہم معطل ہے، اس لئے اس عرصے میں پولیو کے قطروں سے انکاری والدین کی تعداد خطرناک شرح کیساتھ بڑھ گئی ہے ۔ گزشتہ برس سب سے زیادہ ساڑھے تین لاکھ بچے والدین کی انکار کے باعث صوبہ میں حفاظتی قطروں سے محروم رہے ہیں۔2010ء کے بعد سے اب تک کی یہ بڑی تعداد ہے۔ پشاور کے مختلف علاقوں میں انکاریوں کی تعداد صوبے کے دوسرے اضلاع کے مقابلے میں کہیں زائد ریکارڈ کی گئی ہے۔ کورونا کی وجہ سے سرگرمیوں کی معطلی کے باعث پولیو پروگرام کو دوبارہ آزمائش کا سامنا ہے کیونکہ اب انکاری کیس ساڑھے تین لاکھ سے تجاوز کرگئے ہیں اور10لاکھ35ہزار ایسے بچے ہیں جن تک رسائی نہیں ہورہی اور وہ مختلف وجوہات کی وجہ سے سسٹم سے باہر ہیں۔ اس طرح بچوں کو مہلک بیماریوں سے بچائو کے حفاظتی ٹیکہ جات کے پروگرام کی ویکسی نیشن کی شرح بھی کم ہوئی ہے اسلئے انسدادی مہمات نہ ہونے کی وجہ سے وائرسز بڑی تیزی کیساتھ پھیل رہے ہیں۔یہ ایک چشم کشا رپورٹ ہے جس سے پولیو کے خاتمے کا خواب ہی ادھورا رہنے کا خدشہ ہے۔ پولیو قطرے پلانے کیلئے پولیو ورکزر نے کس طرح کی قربانیاں دی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ امر نہیں، افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ان کی قربانیوں کی کوئی قدر نہیں، حکومتی سطح پر بھی سرد مہری کا عالم ہے۔ تازہ اعداد وشمار خطرے کی گھنٹی بجانے کے مترادف ہے جس پر فی الفور توجہ دی جانی چاہئے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ترغیب وتادیب دونوں کا سہارا لیا جانا چاہئے۔ ایک خصوصی پولیو مہم قطرے پینے سے محروم رہ جانے والے بچوں کیلئے چلائی جانی چاہئے، انکاری والدین کے بچوں کو قطرے پلانے کیلئے ضلعی انتظامیہ کی سطح پر سعی ہونی چاہئے جبکہ دوسری نوعیت کے محروم رہ جانے والے بچوں تک رسائی اور ان کو قطرے پلانے کیلئے جگہ اور علاقے کی مناسبت سے اقدامات کا فیصلہ کرکے قطرے پلانے کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔
سیکورٹی فورسز کی بروقت کارروائی
فلاحی تنظیم کی کارکن خواتین کو بیدردی سے قتل کرنے میں ملوث عناصر کیخلاف سیکورٹی فورسز کی جلد کامیاب کارروائی اور گولہ بارود کی بڑی مقدار برآمد کرنا خطرے سے دوچار افراد ہی کیلئے نہیں بلکہ پورے ملک کے عوام کیلئے بھی قابل اطمینان امر ہے۔ سیکورٹی کے ذمہ دار اداروں کی فوری کارروائی جہاں احسن ہے وہاں اس طرح کے عناصر کی علاقے میں موجودگی وآمد اور خونریزی کی کارروائی کرسکنا تشویش کا باعث امر ہے، توقع کی جانی چاہئے کہ علاقے کا امن تباہ کرنے اور عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والے عناصر کا جلد صفایا کردیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  الٹے بانس بریلی کو ؟